تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق
جب وسعت پسندی کی بدولت چند ممالک پوری دنیا میں خون کی ہولی کھیل رہے ہوں۔ جب خوف اور بے بسی کی وجہ سے استبدادی قوتوں کے خلاف بات کرنے تک کو جرم سمجھا جارہا ہو۔ جب اسلحہ بیچ کر امیر ہونے کی خواہش کے سبب اقوام عالم کو جنگ میں دھکیلا جارہا ہو۔ جب پوری دنیا کے قدرتی وسائل پر قبضہ کر کے انسانیت کو بھیک مانگنے پر مجبور کیا جارہا ہو۔ جب اقوام متحدہ پر اپنا تسلط قائم کر کے ، اپنی سیاست کا بول بالا کرکے اور امن و سلامتی کی ڈگڈگی بجا کر پوری دنیا کو ناچنے پر مجبور کیا جارہا ہو۔ جب کشمیر، بوسنیا اور فلسطین میں بارود کی آگ برسا کر آزادی کی بات کرنے والوں کو ابدی نیند سلانے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہو۔ جب غیرت کھا جانے والے ممالک پر پابندیاں لگا کر انہیں توبہ کرنے پر مجبور کیا جارہا ہو۔ جب مذہبی بنیادوں پر آباد کاری کر کے فساد فی الارض کی داغ بیل ڈالی جارہی ہو جب استحصال کے خلاف آواز اٹھا کر استحصال کے لفظ کا ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لئے استحصال کیا جارہا ہو۔ جب مذہبی قیادت فقرواستغناء کے فلسفے کی تعبیر کر کے اپنے متعلقین کے وسائل پر شب خون مارنے کی کوشش کررہی ہو۔ جب بھائی بھائی کا دشمن اور دوست دوست کی عزت کے پیچھے پڑنے کی جسارت کررہا ہو۔ جب ذاتی مقاصد کے لئے ملک وقوم کے سربازار سودے کئے جارہے ہوں۔ جب لسانی اور مذہبی بنیادوں پر دنیا کو تقسیم کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہوں۔ جب مہنگائی سے تنگ آکر اپنے ہی بچوں کے گلے کاٹے اور گردے بیچے جارہے ہوں۔ جب حالات سے تنگ آکر خودکشیاں کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہو۔ جب اجنبیت اور بےحسی کی ہواوں نے ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو تو سوچ کے سارے بستر لپیٹے جاتے ہیں اور جہان ارض وسماء کے سارے ڈاکٹر شاہد اشرف یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ رنگ خوابیدہ پڑے ہیں۔ ایسے میں آنکھوں کے سامنے اندھیرا ہو جاتا ہے۔ سوچ مضمحل ہو جاتی ہے۔ہاتھ پاوں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ دل کی دھڑکن کبھی بڑھ جاتی ہے اور کبھی ساکت ہو جاتی ہے۔ انسانی اجسام کے سارے اعصاب رک سے جاتے ہیں اور یقین مانیں دنیا کے سارے رنگ ماند پڑ جاتے ہیں بلکہ دنیا بے رنگ ہو جاتی ہے۔
ادیب اور شاعر حساس لوگ ہوتے ہیں۔ وہ کسی بھی ناگہانی اور غیر عقلی و غیر منطقی صورتحال پر چپ نہیں رہ سکتے ہیں وہ ان حالات میں اپنا بھرپور رد عمل دیتے ہیں اور بہرے لوگوں کےکانوں کے قریب جاکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں۔ بلاشبہ شاعری اور خصوصا غزل بڑے سالوں تک عشق ومحبت کے محل میں اسیر رہی پھر علامہ محمد اقبال اور ترقی پسند شاعری کا دور آیا پھر تو روایت کے خلاف بغاوت اور پھر شاعری کا دامن عمل کی دولت سے مالا مال ہو گیا۔ اس کے علاوہ نظم۔ نظم تو اس سے بھی چار ہاتھ آگے گئی۔ جہاں حق بات کہنے میں دقت ہوتی نظم کی ہیئت کو بدل دیا جاتا۔ مقصدیت کو فوقیت دی جانے لگی اور شاعری پر مقصد کو قربان کرنے کی ریت آہستہ آہستہ دم توڑنے لگی۔ یوں آزاد نظم، نظم معری، پابند نظم اور نثری نظم۔ بلکہ نثر بھی اپنی فصاحت و بلاغت، روانی اور تسلسل کی بدولت نظم کا روپ دھارنے لگی۔ ہر روپ کا بہروپ ہوتا ہے۔ ادب میں بھی اس کی پوری جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ جھلک دیکھنے کے لئے ہی تو ہم سب بیتاب ہیں اور بیتابیاں سمیٹ کر انسان تخلیق کیا گیا ہے۔ جہاں بے تابی ہو گی وہیں ادب کے شگوفے پھوٹ پڑیں گے اور جہاں رنگ برنگے شگوفے پھوٹیں گے وہاں ادب کی تخلیق کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ شاید اسی لئے ادب برائے ادب کے رنگ ماند پڑ گئے اور ادب برائے زندگی کے رنگوں میں شوخی آگئی اور ادب میں پہلے بھی شوخی کا رنگ نمایاں تھا اور مزید نمایاں ہو گیا۔ اصل دنیا میں رنگ ہی تو ہے جس کی بدولت دنیا خوبصورت ہے اور شاید انسان کو اس کی خوبصورتی برقرار رکھنے کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہے ویسے یہ سارے رنگ اللہ کے رنگ ہیں جس کی تفسیر صبغت اللہ کے پیرائے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ صوفیاء بھی بڑے رمز شناس تھے انہوں نے بھی رنگ ہی رنگ کی بات کر کے خدا کی ذات اور خدا کی صفات کا ایک نئے انداز سے اظہار کیا ہے۔ اقبال نے تصویر کائنات میں رنگ وجود زن کی بدولت دیکھا ہے۔ یوں دیکھنے والوں نے کیا کیا نہ دیکھا ہے۔ دیکھنے کے لئے آنکھیں چاہیئیں اور آنکھوں والوں نے ہر چیز اور ہررنگ میں فقط ایک کا ہی رنگ دیکھا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر شاہد اشرف اردو کے استاد ہیں بلکہ عصر حاضر کے استاد شعراء میں شمار کئے جاتے ہیں۔ میری ان سے باقاعدہ 2018 میں اس وقت ملاقات ہوئی جب ہم نے فیصل آباد سے سرگودھا اکٹھے سفر کیا ۔ کسی بھی شخص کو جاننا ہو تو اس کے ساتھ سفر کرنا ضروری ہوتا ہے آپ ایک دوسرے کو جان جاتے ہیں۔ میں بھی مذکورہ سفر کے دوران ڈاکٹر مذکور کو جان بھی گیا اور پہچان بھی گیا۔ وہ ایک درد دل رکھنے والے انسان ہیں اور انتہائی حساس طبیعت کے حامل ہیں۔ ایسے لوگوں سے دنیا میں افراتفری، نفسانفسی،حرص، لالچ، خون خرابہ، ظلم وتشدد، تعصب وعناد، عداوت و شقاوت جیسی منفی چیزیں نہیں دیکھی جاتیں۔ وہ کسی بھی ایسی صورتحال پر ردعمل دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور ان کے ہاں ادائے فرض میں خوف و رجا نہیں۔ وہ لفظوں کے چناو میں بڑے ہی محتاط ہیں اور ان کو اس بات کا شعوری احساس ہے کہ لفظ بولتے ہیں اور ان کا بروقت اور برمحل بولنا ہی ادب ہے۔ ادبی گفتگو کرنے کے آداب سے بھی وہ پوری طرح آگاہ ہیں۔ بات سننا اور برداشت کرنا بھی جانتے ہیں اور بات سنانا بھی جانتے ہیں بلکہ سلیقہ شعاری سے طنزومزاح کے تیر چلانا بھی جانتے ہیں۔ ادب کا بھی ایک اپنا رنگ ہے۔ ان کے ہاں رنگ خوابیدہ پڑے ہیں لیکن مزے کی بات ہے کہ شعروشاعری میں انہوں نے شعری حسن اور شعری رنگ کو ماند نہیں ہونے دیا ہے۔ وہ سماج کے رویوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہیں لیکن تشدد اور نفرت کرنا انہوں نے شاید سیکھا ہی نہیں ویسے بھی وہ پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں اور سرشتا اور عادتا نفیس انسان ہیں وہ سماج سے دست وگریبان نہیں ہونا چاہتے بلکہ وہ تو اس کی تعلیم وتربیت کے متمنی ہیں۔ ان کا پروگرام دنیا والوں کو محبت کرنے کا ڈھنگ سکھانا ہے۔ ان کا حالیہ شعری مجموعہ اس بات کا شاہد ہے کہ شاہد اشرف اپنی اس کاوش میں سو فیصد کامیابی کے قریب پہنچ چکے ہیں اور تاحال ان کی محنت، جدوجہد اور ریاضت جاری ہے۔ ریاضت ہی سے اس کا بندہ کثافت کو لطافت میں بدل دیتا ہے اور کتاب مذکور کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر شاہد اشرف لطیف جذبوں کا شاعر ہے۔ آئیے ان کی 147 صفحات میں سے چند ہی صفحے پڑھ کر میرے خیال کی تائید و تصدیق کریں۔ کچھ دانے چکھ کر دیگ کے رنگ اور مٹھاس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے