تحریر: نوید مغل
ایسا سماج جس پر چوروں اور نوسر باز پیشہ وروں کا راج ہو اسے انگریزی میں ’’کلیپٹو کریسی‘‘ کہتے ہیں جس کے اُردو آسان فہم الفاظ میں معنی ہیں ’’چوروں کو پڑ گئے چور‘‘صحافتی زندگی میں زمین کا سینہ پھاڑ کر دن رات محنت کرکے سونا اگانے والے دہقان کو جس طرح اب پریشان اور دھکے کھاتے، رلتے دیکھ رہے ہیں، آتی جاتی حکومتوں کی ستم ظریفی کا شکار تو پہلے دن سے ہی رہا ہے اب شائد پہلے ادوار سے کچھ زیادہ ہی پریشان حال نظر آ رہا ہے، اب حکومت اس گندم اسکینڈل کی شفاف چھان پھٹک کے لیے کوئی با اختیار کمیشن بنانے کے بجائے کسانوں کو لالی پاپ دے رہی ہے کہ ہم آپ کو نہ خریدی جانے والی گندم پر چار سو سے چھ سو روپے فی من سبسڈی تو دے سکتے ہیں مگر پہلے کی طرح پوری مقدار میں گندم نہیں لے سکتے۔
چنانچہ گندم کی افراط کسان کے گلے کا طوق بن چکی ہے۔ جہاندیدہ آڑھتی 3900 کے بجائے تین ہزار یا اکتیس سو روپے فی من سے زیادہ دینے پر آمادہ نہیں۔ یہی گندم یہی آڑھتی چند ماہ بعد چار ہزار روپے فی من تک فلور ملز کو بیچیں گے اور فلور مل فی من پانچ سو سے ہزار روپے منافع رکھنے کے بعد جو آٹا تندور تک پہنچائے گی اس سے بننے والی سو گرام روٹی آپ اور میں بیس سے پچیس روپے میں خریدیں گے۔اور اسی روٹی کی قیمت سولہ روپے تک لانے کے لیے حکومتِ پنجاب نے ایک سو تیس ارب روپے مختص کر کے ویسی ہی دیوالیہ سستی روٹی اسکیم دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو دو ہزار آٹھ سے دس تک جاری رکھنے کے لیے محکمہ خوراک کو کمرشل بینکوں سے قرضے لینے پڑ گئے تھے اور پھر یہ سستی روٹی سکیم دو ہزار دس کے سیلاب میں قرض سمیت ڈوب گئی۔مگر فکر کی کوئی بات نہیں۔ گندم کا بحران نہ ہوتا تو چینی، کپاس، گیس اور بجلی کی قیمتوں کا سکینڈل ہوتا۔ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی سال بغیر کسی میگا بحران کے گذر جائے اور اربوں روپے کروڑوں جیبوں سے چند جیبوں میں منتقل نہ ہوں۔
پاکستان جس کو زرعی ملک قرار دیا جاتا ہے۔ جہاں انگریزوں کا وضع کردہ شاندار نہری نظام موجود ہے۔ جس میں وادی سندھ کی زرخیز زمینیں واقع ہیں۔ پنجاب انگریزوں کے دور میں اناج گھر کے طور پر مشہور رہا ہے اور جنگ عظیم اوّل اور دوئم میں اتحادی افواج کو غلہ مہیا کرتا رہا ہے۔ اس وقت پنجاب کا کسان کسمپرسی کا شکار ہے۔ ہم خود کفیل ہونے کی بجائے گندم، تیل دار زرعی اجناس وغیرہ باہر سے منگوا رہے ہیں جس پر قیمتی زر مبادلہ خرچ ہو رہا ہے۔ آج بھی اگر کسان کے ساتھ منصفانہ برتاو? کیا جائے۔ اس کی محنت اور خون پسینے سے تیار پیداوار کا مناسب معاوضہ ملے تو پاکستان نہ صرف خود کفیل ہو سکتا ہے بلکہ اناج اور دوسری زرعی اجناس برآمد کر کے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔اس سال کسان کی گندم کی ایک بمپر فصل آ چکی ہے مگر ابھی تک پنجاب گورنمنٹ نے سرکاری نرخوں پر اس کو خریدنے سے انکار کیا ہوا ہے۔ جس سے کسان کی گندم انتہائی کم نرخوں پر اٹھائی جا رہی ہے۔ پرائیویٹ مارکیٹ میں کسان کی گندم لینے والا خرید دار نہیں ہے۔ مافیا سستے داموں یہ گندم خرید کر سٹاک کیے جا رہا ہے اور جیسے ہی کسان کے پاس سے گندم چلی جائے گی اس کا ریٹ پھر بڑھ جائے گا۔ یہ کسانوں کے ساتھ کھلم کھلا زیادتی ہے اس سے اس کی جو حوصلہ شکنی ہو رہی ہے اور وہ اگلی بار یہ فصل کاشت کرنے سے اجتناب کرے گا۔ اور ہمیں پھر سے زرعی اجناس باہر سے منگوانا پڑیں گی اور شاید مافیا بھی یہی چاہتا ہے۔ایسی صورتحال کیسے پیدا ہوئی کہ اس دفعہ کسان کی گندم رل رہی ہے۔ کسانوں کے ساتھ یہ واردات پرائیویٹ مافیا نے نگران دور حکومت میں کی۔ اس دور کی سیاسی قیادت اور بیوروکریسی اس میں ملوث ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کو لاکھوں ٹن گندم باہر سے منگوانے کی اجازت دی گئی جب اپنے پاس گندم کا وافر سٹاک موجود تھا۔ امپورٹڈ گندم کے بھرے ہوئے جہاز اس وقت بھی لنگر انداز ہو رہے تھے جب سندھ میں گندم کی پیداوار آ چکی تھی۔ امپورٹڈ گندم باہر سے منگوانے کے لئے ٹی سی پی یا پاسکو کی بجائے پرائیویٹ مافیا کو کھلم کھلا چھٹی دی گئی۔
اس میں اربوں روپے بنائے گئے یہ وہی اربوں روپے ہیں جو کسان کا جائز معاوضہ تھا جس سے لاکھوں کسانوں کو تو محروم کر دیا گیا اور لاکھوں کسانوں کا یہ جائز معاوضہ چند سرمایہ رکھنے والے لوگوں کی جیبوں میں چلا گیا۔ مختلف ذرائع کے مطابق یوکرین سے منگوائی گئی گندم فلور ملز کو بیچی گئی اور محکمہ فوڈ کی گندم اٹھائی ہی نہیں گئی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے نگران دور میں گندم امپورٹ کرنے کی اجازت دینے پر کوئی انکوائری کمیشن بھی بنانے کا اعلان کیا ہے۔مگر اس کمیشن نے ان طاقتور افراد کے خلاف کیا کوئی ایکشن لے پانا ہے جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔ گندم کی امپورٹ کی اجازت دینے والے نگران وزیراعظم، نگران وزیر تجارت، نگران وزیر فوڈ سیکورٹی، نگران وزیر خزانہ یہ تمام طاقتور لوگ ہیں۔ اس وقت گنے کے کاشتکاروں کے اربوں روپے شوگر ملوں نے دبائے ہوئے ہیں۔ شوگر ملوں پر تحریک انصاف کے دور میں ہاتھ ڈالا گیا تھا اور پی ٹی آئی نے کسانوں کو بروقت رقم ادائیگی کے لئے کافی سختی سے کام لیا تھا۔
کین کمشنر کو کافی اختیارات دیے گئے تھے مگر اب کسان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حکومتی ارکان اسمبلی بھی پریشان ہیں وہ اس وقت اپنے حلقوں میں جانے سے ڈرتے ہیں جہاں ان کے ووٹرز کسان ان سے باردانہ مانگتے ہیں۔ مگر پنجاب گورنمنٹ اپنے ان ایم پی ایز کے پرزور اصرار پر بھی گندم کئی خریداری شروع نہیں کر رہی ہے کیونکہ بیوروکریسی نے چیف منسٹر اور ان کی کچن کیبنٹ کو ڈرایا ہوا ہے کہ اگر گندم خریداری کے لئے بنکوں سے قرض لیا گیا تو بلند شرح سود کی وجہ سے حکومت کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ تاہم اس وقت پنجاب میں ایک سیاسی حکومت ہے اگر اس نے گندم خریداری نہ کی تو نہ صرف کسان کا دیوالیہ نکلے گا اس حکومت کا بھی سیاسی دیوالیہ نکل جائے گا۔
کالم کے آخر میں حکومتی ٹیکس نظام کی چھوٹی سی جھلک۔۔۔ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے مبینہ ایک انٹرویو کے تناظر میں۔
1-ایک زمیندار کو ٹیکس کا نوٹس بھیجا تو شاہ محمود قریشی کی قیادت میں مختلف پارٹیوں کے اراکین اسمبلی آگئے کہ زمینداروں پہ ہاتھ نہ ڈالیں۔ ٹیکس نہیں دیں گے۔ سردار دریشک نے کہا کہ تم ابھی بچے ہو یہ نہیں ہوگا۔ ہم جنوبی پنجاب کے چالیس ایم این ہیں ہمارے بغیر حکومتیں نہیں بنتیں۔
2۔ پراپرٹی ٹیکس کا ریٹ اوپر کرنے کی کوشش کی تو باجوہ صاحب نے بلا لیا کہ ڈی ایچ اے میں کاروبار ٹھپ ہوگئے ہیں۔
3۔ سمگلنگ پہ ہاتھ ڈالا تو کمانڈر سدرن کمانڈ آگئے کہ وہاں عوام کا یہی کاروبار ہے۔ مسئلہ کھڑا ہوجائے گا۔
4۔ تمباکو پر ٹیکس لگایا تو اسد قیصر 40 ایم این اے لے کے آ گئے کہ نہیں دیں گے۔
5۔ جمرود میں قائم سٹیل کی فیکٹر یاں ٹیکس نہیں دیتیں۔ بجلی کا بل بھی نہیں دیتیں۔ ان پہ ہاتھ ڈالا تو فاٹا کے سنیٹرز آگئے کہ اگر یہ نہ بند کیا تو وہ پی ڈی ایم کو فنانس کریں گے۔
6۔ تاجروں کو ڈاکیومینٹیشن میں لانے کی کوشش کی تو وزیراعظم اور ڈی جی سی دونوں نے کہا کہ روک دیں۔ یہ لوگ شٹر ڈاون ہڑتال کرکے بحران پیدا کر دیں گے۔
اس لیے ٹیکس صرف تنخواہ دار اور مجبور طبقہ ہی دے گا۔۔۔۔۔
آپ بھلے سے اپنے لیڈروں کو عظیم اور زندہ باد کہتے رہیں