جوتی سے موبائل تک

تحریر ؛۔ جاویدایازخان
ہماری مسجد کے امام صاحب نے گذشتہ دنوں نمازیوں سے اپیل کی کہ ہماری کالونی کے سیکورٹی گارڈ کا ایک نیا قیمتی موبائل جو اس نے دوران ڈیوٹی چارجنگ کے لیے مسجد میں سوئچ میں لگایا گیا تھا دوران نماز کسی نے اٹھا لیا ہے۔جو اس غریب گارڈ کا اپنا نہیں ہے بلکہ اس کے پاس کسی امانت ہے۔ اگر کسی نے غلطی سے اٹھا لیا ہے تو براہ کرم واپس کردےکیونکہ وہ گارڈ بہت پریشان ہے ۔یہ اعلان وہ ہر نماز کے بعد کئی دن تک کرتے رہے مگر کسی نے غلطی سے اٹھایا ہوتا تو وہ ضرور واپس کرتا درحقیقت تو وہ موبائل چوری ہوچکا تھا ۔ یہ واقعہ پیش بھی رمضان المبارک کے دوران آیا جب نمازیوں کی تعداد بھی بہت ہوتی ہے ماحول بھی نیکیوں کا ہوتا ہے ۔ اور کہتے ہیں کہ شیطان بھی پابند سلاسل ہوتا ہے ۔ہماری مساجد سے اشیاء چوری کی ایک طویل تاریخ ہے جو بہت پہلے جوتی چوری سے شروع ہوئی تھی پھر ٹوپی ،گلاس ،لوٹے ،بلب ،کلاک سے ہوتی ہوئی وضو لی ٹونٹی تک تو پہلے ہی پہنچ چکی تھی پھر کچھ مسجدوں سے پنکھے اور کرسیوں کی چوری کی ورادتیں بھی سامنے آنے لگیں اور اب بات موبائل اور موٹر سایکل تک جا پہنچی ہے ۔ ہمیں چوری سے بچانے والے سیکورٹی گارڈ کا موبائل چوری ہونا دراصل تو ٹیکنالوجی کی چوری ہے ممکن ہے کہ کسی طرح وہ ٹریس بھی ہو جاۓ ۔لیکن باقی اشیاء تو بے زبان ہوتی ہیں ان کی برآمدگی بعد میں کبھی نہیں ہوئی ۔البتہ بہت سے جوتی چور رنگ ہاتھوں اتفاقا” پکڑے بھی جاتے ہیں اور لوگوں کے تشدد کا نشانہ بھی بنتے بھی دیکھا ہے ۔جب سے سی سی ٹی وی اور سیکورٹی کیمرے نصب ہونے لگے ہیں جوتیوں کی حفاظت میں تو بہتری ضرور آئی ہے لیکن پانی کے گلاس ، باتھ روم کے لوٹے اب بھی زنجیر سے باندھ کر رکھے جاتے ہیں ۔وضو کی ٹونٹیاں اب بھی ویلڈ کرا نی پڑتی ہیں ۔ریلوے کی طرح بلب کو لوہے کے جنگلے سے محفوظ بنایا جاتا ہے ۔ایک لطیفہ یاد آگیا کہتے ہیں کہ کسی نے پوچھا نماز پڑھتے وقت اگر آگے جوتے رکھیں تو نماز نہیں ہوتی؟ تو جواب ملا اگر نماز پڑھتے وقت جوتے پیچھے ہوں تو جوتے نہیں ہوتے ۔جوتی چوری کی ملکی و غیر ملکی بےشمار فنی ویڈیو سی سی تی وی ویڈیوز سوشل میڈیا پر نظر آتی ہیں تو ان چوروں کی مہارت کی بھی داد دینی پڑتی ہے۔
پچھلے دنوں جوتا چوری کا نیا کمال دیکھنے میں آیا ویسے تو کسی کے بھی جوتے کہیں بھی چوری ہو سکتے ہیں مگر عبادت گاہیں اور خصوصا” مساجد اس سرگرمی کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں ۔پنجاب کے ایک شہر میں مسجد سے جوتیاں چوری کرنے کے بعد انہیں آن لائن فروخت کرنے والا ایک چور شہریوں کے ہتھے چڑھ گیا شہریوں نے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پولیس کے حوالے کردیا ۔پولیس کے مطابق ملزم کے موبائل ریکارڈ سے چوری کے جوتے آن لائن بیچنے کا انکشاف ہوا ہے ،پولیس کے مطابق ملزم اچھے برانڈ کے جوتے چوری کرکے واٹس ایپ کے زریعے بیچتا تھا ۔ملزم کا تعلق ایک بااثر گھرانے سے بتایا جاتا ہے اور وہ آئس کا نشہ کرتا ہے وہ اس سے قبل بھی ایک مسجد سے جوتے چوری کرتے ہوے پکڑا جا چکا ہے ۔ نمازی جب نماز پڑھ کر باہر نکلتے تھے تو جوتے چوری ہو چکے ہوتے تھے ۔کہتے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق سال ۲۰۱۹ء میں لاہور کی ایک مسجد سے ایک لاکھ مالیت کے جوتے چوری کر لیے گئے تھے ۔ روزنامہ جنگ کے مطابق ابھی اپریل میں ہی پارلیمنٹ ہاوس کی مسجد کے باہر سے جمعہ کے بعد متعدد نمازیوں کو جوتوں سے محروم کردیا گیا ۔اس قدر سیکورٹی کے باوجود نامعلوم جوتی چور ایک درجن سے زائد افراد کے جوتے چوری کرکے چلتابنا اور متاثرہ افراد کو ننگے پاوں واپس آنا پڑا ۔ پارلیمنٹ کی مسجد چوری کا معاملے پر اسپیکر قومی اسمبلی نے نوٹس لیکر سارجنٹ ایٹ آرمز کو انکوئری سونپ دی ہے ۔روزنامہ آج نیوز کی ایک اور خبر کے مطابق پاکستان کے ایک شہر ٹیکسلا کے انٹر جینج کی مقامی مسجد کے باہر سے مہنگے برانڈ کے جوتے چوری ہونے پر ایک شہری جو اسلام آباد کا رہائشی بتایا گیا جس نے ایف آئی آر درج کرادی ہے ۔ان جوتوں کی مالیت تین لاکھ بتائی جاتی ہے ،شہری کے مطابق سی سی ٹی وی سے ملزم کی شناخت کر لی گئی ہے اور ملزم نے اپنی غلطی تسلیم کرکے جوتے واپس کرنے کی حامی بھی بھر لی ہے ۔اخباری خبر کے مطابق یہ واقعہ دوران سفر انٹر جینج پر پیش آیا اور دلچسپ بات یہ بتائی جاتی ہے کہ جوتا چرانے والا چور بھی ایک مہنگی کار پر سوار ہوکر مسجد آیا تھا ۔اس طرح کی خبریں آے دن ہمارے میڈیا پر آتی رہتی ہیں ۔وقت کے ساتھ ساتھ اس پیشے میں جدت آتی جارہی ہے ۔سب سے آسان یہ ہے کہ پرانی جوتی پہن کر آو ُ اور ن۴ی اور کسی نئی اور قیمتی جوتی سے بدل کر چلے جائیں ۔خدا نخواستہ پکڑے جائیں تو غلط فہمی کہہ کر جان چھڑا لیں ۔بہر حال اب سیکورٹی کیمروں نے اس چوری کو خاصا مشکل بنا دیا ہے ۔
پچھلے دنوں ایک مسجد میں تبلیغی جماعت آئی تو دیکھنے میں آیا کہ انہوں نے خود سب سے پہلے اپنے سامان کے ساتھ ساتھ اپنے جوتوں کو محفو ظ مقام پر رکھا ۔حیرت اس بات پر ہوئی کہ ہم پچھلے پچھتر سال سے دین کی تبلیغ کر رہے ہیں مگر مساجد سے چوری کے واقعات ختم ہونے کا نام نہیں لیتے ۔یہاں تک کہ ان نیک لوگوں کے جوتے بھی مساجد میں غیر محفوظ ہوتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نیکی اور اچھائی کی ہدایت تو کرتے ہیں مگر برائی سے روکنے کی کوشش نہیں کرتے اور ناہی یہ بتاتے ہیں کہ برائی سے باز رہنا بھی ایک بہت بڑی نیکی ہوتی ہے ۔ہم عبادات کی تلقین تو کرتے ہیں مگر ہمارے معاملات دن بدن بگڑتے جارہے ہیں ۔سڑک اور گلی میں پڑی چیز اٹھا لینا برائی نہیں سمجھا جاتا۔مجھے خود کئی مرتبہ ننگے پاوں مسجد سے آنا پڑا ہے ۔لوگوں نے اپنی اپنی جوتی چوری سے بچانے کے بےشمار طریقے اختیار کر کے دیکھے ہیں ۔ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ جب مسجد جائیں تو دونوں جوتے ایک جگہ نہ رکھیں بلکہ ایک پاوں کہیں تو دوسرا پاوں کہیں اور رکھیں اور وہ اس پر عمل بھی کرتے رہے مگر ایک دن ان کی یہ ذہانت بھی دم توڑ گئی جب دونوں جوتے مختلف جگہ سے چوری ہو گئے ۔ایک اور دوست اپنی جوتیوں کو کپڑے کے تھیلے میں ڈال کر رکھتے تھے ایک دن وہ تھیلا ہی جوتیوں سمیت غائب ہوگیا ۔ہمارے اکثر گھروں میں مسجد لے جانے والی جوتیاں مخصوص ہوتی ہیں اور ایسی ہوتی ہیں جن کے گم یا چوری ہونے پر افسوس نہ ہو ۔قیمتی جوتیوں کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ نماز کے دوران بھی جوتوں کی فکر لاحق ہوتی ہے ۔
ہماری بدقستی یہ ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے ملک میں یا تو جمہوریت کو خطرے میں پایا ہے اور یا پھر مساجد میں زنجیروں سے بندھے گلاس اور لوٹوں کے ساتھ ساتھ قیمتی جوتیوں کو بھی خطرے میں دیکھا گیا ہے ۔آخر کب تک یہ سب ہوتا رہے گا ؟کب تک ہم اپنی چوری کی عادت نہیں بدلیں گے ؟ کب تک ہمارے گلاس سبیلوں تک پر زنجیروں سے بندھے ہمار منہ چڑاتے رہیں گے ؟ اس بارے میں میرے ایک دوست کا موقف ذرا مختلف ہے وہ کہتے ہیں کہ جوتی چور دنیا کا سب سے بزدل ،ڈرپوک ،غریب اور قابل ترس انسان ہوتا ہے جو ایک معمولی چیز کے لیے یہ واردات کرتا ہے ۔یہ وہ واحد چور ہوتا ہے جو اگر پکڑا جاے ٔ تو اسے سزا بھی لوگ موقع پر ہی فوری دے دیتے ہیں اور جوتی چوری کی بدنامی اس کی پیشانی پر ساری عمر کے لیے ثبت ہو جاتی ہے ۔ایک اور دوست کا خیال ہے کہ جوتی اگر مجبورا” اور ضرورت کے تحت بدلی جاۓ یا چوری کی جاۓ تو اسے قابل معافی ہونا چاہیے ۔ان کے خیال میں ہمیں اچھی اور نئی جوتیاں پہن کر مسجد جانا چاہیے تاکہ اگر چوری بھی ہو تو کسی ضرورت مند کے کچھ عرصہ کام تو آسکے ۔ بہر حال ہمیں اپنے معاشرے میں اس طرح کی برائیوں کے خاتمہ کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر شعور پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے ۔

Comments (0)
Add Comment