کمیٹی سربراہ سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل کی سربراہی میں اجلاس ہوا جس میں گندم کی درآمد سے پیدا ہونے والی صورتحال اور پہلی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔
تحقیقاتی کمیٹی نے سابق نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور سابق سیکرٹری فوڈ محمد محمود کو طلب کر لیا۔ کمیٹی کا اجلاس کل بھی ہوگا جبکہ کمیٹی پیر کو وزیر اعظم کو رپورٹ پیش کرے گی۔
سابق نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنے حالیہ بیان میں گندم درآمد کا ملبہ صوبائی نگراں حکومتوں پر ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم کا کام نہیں ہے وہ گندم کی پیداوار دیکھیں۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ نگراں دور میں گندم کی مصنوعی ڈیمانڈ صوبوں نے دی اور ڈیمانڈ کرنے والے بیوروکریٹس آج بھی صوبوں میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پروجیکشن دی گئی تھی کہ گندم کی پیداوار اور کھپت میں 4 ملین میٹرک ٹن کا گیپ ہے، 4 ملین میٹرک ٹن گندم کی کمی تھی اور صرف 3.4 ملین میٹرک ٹن درآمد کی گئی۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی اور سابق نگراں وزیر اعظم کے درمیان گندم اسکینڈل پر تلخ کلامی ہوئی تھی۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے پر الزامات لگائے تھے، انوار الحق کاکڑ نے حنیف عباسی سے کہا تھا کہ گندم معاملے پر آپ نے ہم پر انگلی اٹھائی ہے کیا گرفتار کرنے آئے ہیں؟ اس پر حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ میں قسم کھاتا ہوں آپ چور ہو اور گندم اسکینڈل میں پیسے کھائے ہیں۔
دو روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے گندم کی درآمد سے متعلق انکوائری کیلیے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے تھی جس کی سربراہی سیکرٹری کابینہ ڈویژن کر رہے ہیں۔
شہباز شریف نے گزشتہ برس گندم کی درآمد پر وزارت قومی غذائی تحفظ سے استفسار کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ گزشتہ برس گندم کی اچھی پیداوار کے باوجود درآمد کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟