تبصرہ

تحریر. محمد اکبر خان

معروف اور کہنہ مشق صحافی، محقق، ناول نگار، مولف اور منفرد لہجے کے شاعر جناب نواب ناظم میو کی زندگی ادبی سرگرمیوں، اور مسلسل ادبی اور سماجی خدمات سے عبارت ہے. ان کی کئی کتابیں ظہور پذیر ہوکر ادبی و عملی حلقوں سے ستائش اور پسندیدگی کی اسناد حاصل کر چکی ہیں. حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ان کی تالیف “صاحب اقلیم ادب” مدیر اعلیٰ ماہنامہ میوات لاہور مرحوم شیر محمد چوہدری المعروف اخگر میو کی زندگی اور ادبی خدمات پر مبنی ایک اعلی تالیف ہے. جس کے مؤلفین میں معروف میواتی،اور اردو زبان کے شاعر احمد فہیم میو بھی نواب ناظم کے شانہ بشانہ ہیں. اس مختصر کتاب میں اخگر میو کی ادبی اور صحافتی زندگی کا احاطہ نہایت جامعیت اور ہمہ گیری سے کیا گیا ہے.صاحب اقلیم ادب کے نام سے سامنے آنے والی اس تالیف کا انتساب کمال الدین کمال سالار پوری اور ریاض رومانی کے نام کیا گیا ہے. کتاب تالیف کرنے کی احتیاج کے ضمن میں یہ تحریر ہے کہ جناب شیر محمد چوہدری میواتی جو اخگر میو کے نام سے معروف تھے ان کے ادب و صحافت کے میدان میں ناقدانہ ادبی کاوش ماہنامہ میوات کا اجرا اور اس کی ادارت کے ساتھ ساتھ میواتی برادری کو ہر شعبہ زندگی میں ترقی کی راہ پر دیکھنے کی خواہش اور دیگر خدمات کو قارئین کے سامنے پیش کیا جائے. کتاب میں موجود اخگر میو کے مختصر حالات زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پیدائش ہندوستان میں واقع علاقہ میوات کے خوبصورت گاؤں گنگوانی میں چوہدری سہراب خان کے گھر ہوئی .ان کے والد درس و تدریس کے شعبے سے منسلک تھے جبکہ دادا علاقے کے ایک معروف زمین دار تھے. چار جولائی 1936 کو پیدا ہونے والے شیر محمد چوہدری میواتی نے تحریک آزادی کی جدوجہد اور مسلمانان ہند کی دشواریوں کا مشاہدہ اپنے بچپن میں کیا سیاسی ہلچل اور سماجی تبدیلیاں ان کی نگاہوں کے سامنے وقوع پذیر ہوئیں، انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ سات سال کی عمر میں تحریک پاکستان شامل ہوکر اپنے حصے کی شمع روشن کی.متعصب ہنود اور سکھوں کو کلمہ طیبہ کے نام پر کسی سرزمین کا وجود ہرگز گوارا نہ تھا. انھوں نے ہندوستان کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا.یوں تو پورے ہندوستان پر دور ابتلاء آگیا مگر سب سے زیادہ مصائب اور آزمائشوں سے شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کو گزرنا پڑا، انھیں بے شمار قربانیاں دینی پڑیں، مومنوں کا مال، جان اور آبرو کچھ بھی محفوظ نہ رہا. یہی مظالم علاقہ میوات کے مسلمانوں پر بھی توڑے گئے حتی کہ مسلمان کثیر تعداد میں ہجرت پر مجبور ہوگئے. شیر محمد چوہدری میواتی کا خاندان قصور کے ایک نواحی گاؤں سرسنگ میں رہائش پذیر ہوا. اخگر میواتی کا ابتداء ہی سے رجحان ادب پروری کی طرف رہا اور انھوں نے اپنا پہلا میواتی ادبی فن پارہ ایک ناول موسوم بہ باہڑ میو 1980 میں شایع کیا. میواتی زبان و ادب کی تاریخ میں اخگر میواتی کی کاوشیں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں. اس سے قبل 1979 میں ماہنامہ میوات کا اجرا بھی ان کی عظیم قومی خدمت کہی جا سکتی ہے. جس کے لیے ان کے پاس کوئی سرمایہ نہ تھا انھوں نے اپنے چونیاں میں واقع مکان کو اونے پونے فروخت کرکے شمارہ جاری کیا مگر گیارہ شمارے ہی شایع ہو سکے.انھوں نے میواتی زبان و ادب کی ناقابل فراموش خدمت کی ہے. ہردور میں ایسے چند ہی لوگ موجود ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں ایک انجمن سے کسی بھی طرح کم نہیں ہوتے. اخگر میو بھی ایسی ہی ایک ہستی تھے نواب ناظم میو صاحب اور دیگر مولفین بھی مبارکباد کے حقدار ہیں کہ انھوں نے قارئین کو اخگر میو کی ادبی اور سماجی خدمات سے آگاہ کرنے کا بیڑا اٹھایا.

Comments (0)
Add Comment