تحریر:سہیل بشیر منج
لاہور کی اکبری منڈی میں ایک بہت بڑا تاجر ہوا کرتا تھا اس کا نام مشتاق احمد تھا وہ اس قدر با اثر تھا کہ ملک میں چینی گھی چاول دالیں حتی کہ کوئی بھی جنس لے لیں مشتاق احمد کے مکمل کنٹرول میں ہوتی تھی پاکستان میں موجود تمام شوگر مل مالکان کے موبائل فونز میں مشتاق احمد کا نمبر موجود ہوتا تھا غلط نہ ہوگا اگر یوں کہہ لیا جائے کہ وہ چینی کی منڈی کا بے تاج بادشاہ تھا جب بھی چینی کی قیمتوں میں کوئی رد و بدل کرنے کی ضرورت پیش آ تی تو شوگر مل مالکان اسے دعوت پر بلاتے دسترخوان کو لذیذ پرتکلف اور مہنگے کھانوں سے بھر دیا جاتا کھانے کے بعد مشتاق احمد کو ٹارگٹ دیا جاتا کہ سارے ملک میں چینی کی قیمت میں دس یا بیس روپے اضافہ کرنا ہے تو اس کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا تھا
(رولا ائی کوئی نہیں سرکار سمجھ لیں کام ہو گیا )
پھر وہ اپنا بزنس پلان ترتیب دیتا پاکستان کے بڑے شہروں لاہور، راولپنڈی، فیصل آ باد، کراچی حیدرآباد، کوئٹہ پشاور کا انتخاب کیا جاتا اور وہاں چینی کی سپلائی 50 فیصد کم کر دی جاتی کچھ دن اور گزرتے 20 فیصد مزید کم کر دی جاتی یہاں تک کہ طلب اور رسد میں فرق کی وجہ سے چینی نایاب ہو جاتی اسی دورانیے میں مل مالکان بڑے بڑے سٹاک جمع کر لیتے مشتاق احمد کو ہر شہر سے بڑے تاجر رابطہ کرتے تو وہ انہیں چینی کی نئی قیمت بتا دیتا جیسے ہی تاجر برادری اور عوام 10 20 روپے اضافی قیمت قبول کر لیتے چینی کی سپلائی بحال ہونا شروع ہو جاتی یوں
ہفتہ دس دن میں مل مالکان اور مشتاق احمد پھر سے نئے کروڑوں روپے اکٹھے کر لیتے ہیں یوں وہ مشتاق احمد سے مشتاق چینی کے نام سے مشہور ہو گیا
میرے خیال میں اس وقت جو سلوک کسانوں اور ان کی گندم کے ساتھ کیا جا رہا ہے عین ممکن ہے کہ اس کے پیچھے بھی بہت سے مشتاق گندم موجود ہوں اگر آ پ احباب کو یاد ہو تو ہر سال خبروں میں ایک خبر یہ بھی موجود ہوتی تھی کہ گورنمنٹ نے اس سال مقررہ ہدف سے زیادہ گندم کی خریدداری کر لی ہے جس پر وزیراعلی اور وزیر خوراک کی جانب سے انتظامیہ کو باقاعدہ مبارکباد پیش کی جاتی پھر کچھ ماہ گزرتے تو ایک اور خبر ٹیلی ویژن سکرین پر دیکھنے کو ملتی کہ اتنے ٹن گندم بارش کی وجہ سے خراب ہو گئی یا اتنے ٹن گندم چوہے کھا گئے درحقیقت کئی ہزار ٹن گندم کی خریداری صرف کاغذوں پر ہی کی جاتی تھی
خیر اس سال تو صورتحال ہی مختلف ہے کسان بیچارا گندم گھروں میں رکھ کر بیٹھا ہے لیکن حکومت خریدداری شروع نہیں کر رہی البتہ بہت سے مشتاق چینی حکومت کی مقررہ کردہ قیمت سے بہت نیچے گندم خرید رہے ہیں پتہ نہیں کیوں میرے ذہن سے یہ بات نکل نہیں رہی کہ کسانوں سے کم قیمت میں گندم خرید کر ائندہ چند ماہ میں مشتاق چینی کی خدمات حاصل کر کے گندم کی مصنوعی قلت پیدا کی جائے گی اور پھر یہی گندم چار سے پانچ ہزار روپے فی من فروخت کی جائے گی
اس سال گندم کی کاشت کے دوران کسانوں کے سر پر خوف کے بادل ہمیشہ منڈلاتے دکھائی دیے
کسان نے جو خرچہ کیا تھا موجودہ قیمت میں وہ بھی پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا فی ایکڑ اخراجات میں سر فہرست زمین کا ٹھیکہ تقریبا ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے فی ایکڑ ڈی اے پی کی آٹھ ہزار والی بوری پندره ہزار روپے کی تھی
نائٹروفاس کا بیگ پانچ ہزار کی بجائے دس ہزار یوریا پانچ ہزار کی بجائے نو ہزار روپے میں ملا بارشوں کی کمی کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں کسانوں نے گندم کو آ ٹھ پانی لگائے اس طرح ڈیزل کا خرچہ بھی ڈبل رہا لیکن وہ پر امید تھے کہ جسے ہی فصل آ ئے گی اگر سرکاری قیمت پر بھی فروخت کر دی گئی تو اچھا منافع کما لیں گے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا کسان اپنی گندم سڑکوں کے کناروں پر رکھ کر فروخت کرنے پر مجبور ہیں
گزشتہ روز وزیراعظم کی ہدایت نے امید کی ایک کرن جگائی ہے لیکن ابھی تاکہ اس پر کوئی عمل درآ مد نہیں ہو سکا جناب وزیراعلی با خدا کسان
آ پ کی طرف دیکھ رہے ہیں برائے کرم جلد از جلد ایک حکم جاری فرما دیں کہ کسانوں سے سرکاری قیمت پر گندم کی خریدداری کی جائے اس پر فوری عمل درآمد کا حکم بھی ساتھ ہی صادر فرما دیں تاکہ کسانوں کے سروں سے خوف اور مایوسی کے بادل چھٹ جائیں اور وہ اپنی اگلی فصل کی تیاری کر سکیں
اس کے ساتھ ہی کھادوں اور بیچوں کی قیمتوں کا تعین بھی ابھی سے فرما دیں انہیں ہر حال میں سبسڈی کے ساتھ کھادیں فراہم کرنے کی یقین
دہانی کروائیں کسانوں کی سیلاب بارشوں میں ضائع ہوئی فصلوں کے بعد کپاس اور مکئی کی فصلوں کا نقصان پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں فوری طور پر کوئی ریلیف پیکج دے دیا جائے اگر خزانے میں پیسے نہیں ہیں تو کسی بھی دوسرے کھاتے سے پیسے نکال کر یا چھ ماہ کے سرکاری اخراجات میں کمی لا کر انہیں سہولت فراہم کر دیں
ریاستیں اپنے شہریوں کے لیے مشکل حالات میں ساتھ دینے کا بندوبست کرتی ہیں آ پ بھی کر دیں تاکہ ان کا ریاست پر بچا کھچا اعتماد بحال ہو جائے انہیں ٹیوب ویل چلانے کے لیے بے شک بلیک مارکیٹ سے ڈیزل خرید دیں امریکہ چین روس سمیت دنیا کے بہت سے ممالک بلیک مارکیٹ سے پٹرولیم مصنوعات خرید رہے ہیں ان کے پیٹر انجنوں کو ہائی اکٹین کی ضرورت نہیں ہوتی کچھ بھی کر کے ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعے اعلان فرما دیں کہ کل سے کسانوں کی اجناس کی خریداری شروع ہو جائے گی اور صرف ایک ہفتہ خود نگرانی فرما دیں مشتاق چینی جیسے مافیاز کے گرد گھیرا سخت کر دیں یہ میرے کسانوں کی چھ ماہ کی محنت ہے اسے یوں کوڑیوں کے مول بکنے سے بچا لیں اللہ کریم آپ کا مددگار ہو امین