تحریر:خالد غورغشتی
ملک کے بہت سے علاقوں میں رہنے کا موقع ملا ۔ جن میں پنڈی ، اسلام آباد ، کراچی اور پشاور کے بعض علاقے نمایاں ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں ، بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ عوام کو بتانا ضروری ہو چکی ہیں ۔ جن میں سے ایک گندم کا خودساختہ بُحران بھی ہے ۔
یہ بات قابل غور ہے کہ ہمارے دیس میں سیاست ، مذہب ، لسانیات ، کسانوں کے حقوق ، طلبہ کے حقوق ، مزدوروں کے حقوق اور اقلیتیوں کے حقوق سمیت سینکڑوں تنظیمیں اور این جی اوز سرگرم ہیں لیکن معاشرے کو ان سے خاطر خواہ کیوں نفع نہیں پہنچ رہا ہے ۔
یہ محاورہ تو آپ نے بہ کثرت سنا ہوگا کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں ۔ کچھ یہی معاملہ ان تنظیمیں اور این جی اوز کا بھی ہے ۔ ورنہ طالب علم کے فیسوں اور داخلوں سے لے کر مزدور کی اجرت تک عوام یوں دربدر دھکے نہ کھا رہی ہوتیں ۔
آج کل سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور الیکڑونکس میڈیا ایسی خبروں سے بھرا پڑا ہے کہ کسانوں کو حق نہ ملنے پر وہ جگہ جگہ سراپا احتجاج ہیں ۔ ان سے گزارش یہ کرنا ہے کہ آپ اپنے اِردگرد دیکھیں کتنے پڑوسی ، کتنے رشتہ دار آٹا خریدنے کی سکت رکھتے ہیں ؟
اگر اکثریت آپ کو اس معاملے میں لاچار نظر آتی ہے تو آپ حکومت کو گندم مہنگی کرنے کی سفارش کیوں کر رہے ہیں ؟ کیا آپ کی ہمسائیوں اور ان کے بچوں کو بھوک سے مارنے کی سازش ہے ؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری اکثریت عُشر نکالتی ہی نہیں ، جو نکالتی بھی ہے ، وہ اتنا کم ہوتا ہے کہ حق داروں تک حق ہی نہیں پہنچ پاتا ۔
ہمارا کسان بھائیوں سے بھرپور مطالبہ ہے کہ وہ کمائی کےلیے کسی دوسری فصل کا انتخاب کرلیں ، گندم کا عشر نکال کر اور مزید اسے سستی کرکے اپنے غریب بھائیوں پر رحم کھائیں ۔ ویسے بھی آج کل سبزیاں اور پھل دُگنے بِک رہے ہیں ۔ ان میں باقی کی کسر پوری کر لیجیے گا لیکن گندم مہنگی کرکے اپنے غریب بھائیوں سے دو وقت کی روٹی تو نہ چھینیں ۔
سننے میں آ رہا کہ بعض شہروں میں گندم تین ہزار روپے فی من تک بھی فروخت ہو رہی ہے ، یہ نہایت خوش آئند اقدام ہے ۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ گندم کا زیادہ سے زیادہ عشر نکال کر مزید سستی کی جائے تاکہ غریب عوام کچھ دن تو سکون کی روٹی کھا سکیں ۔