توقعات

تحریر، اورنگ زیب اعوان

توقعات انسانی زندگی کا جز لاینفک ہیں. توقعات ہی انسانی زندگی کو دوام بخشتیں ہیں. یہ توقعات ہی کا سحر ہے. کہ انسان اپنی پوری زندگی ان کے سہارے بسر کر دیتا ہے. توقعات انسان کی سوچ کی عکاسی کرتیں ہیں.کوئی مال و دولت تو کوئی عزت و شہرت، کوئی عقل و شعور تو کوئی جھوٹی نمود و نمائش کی توقع کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے. توقعات اللہ تعالیٰ کی ذات پاک سے بھی ہوتیں ہیں. اور انسانوں سے بھی. ایک انسان دوسرے انسانوں سے کچھ امیدیں وابستہ کر لیتا ہے. انسانی زندگی کا فلسفہ حیات ہی توقعات پر منحصر ہے. انسان ہر روز کچھ نئی توقعات کے ساتھ اپنے دن کا آغاز کرتا ہے. دن کے اختتام پر اس کی توقعات ختم نہیں ہوتیں. بلکہ نئی صبج کی امید میں بے چین رہتیں ہیں. یہ سلسلہ انسان کی زندگی کو رواں دواں رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے. جس دن توقعات کا لامتناہی سلسلہ اختتام پذیر ہوتا ہے. اسی دن زندگی اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے. انسان کا وجود ہی توقعات کا محتاج ہیں. بچہ ہوتا ہے. تو اسے سکول اس توقع کے ساتھ بھیجا جاتا ہے. کہ یہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ایک کامیاب انسان بنے گا.اس کی شادی کی جاتی ہے. اس توقع کے ساتھ کہ یہ اس کی نسل کو آگے بڑھائے گا. والدین اپنے بچے سے توقع کرتے ہیں. کہ یہ ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا. انسان نیک اعمال اس توقع کے ساتھ کرتا ہے. کہ آخرت میں اسے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی نصیب ہوگی. یہ توقعات کا نہ تھمنے والا چکر چلتا رہتا ہے. انسان بدلتے رہتے ہیں. یہ توقعات کبھی ختم نہیں ہوتیں. ان کو پانے کے چکر میں انسان ختم ہو جاتا ہے. مطلب یہ نہیں کہ انسان کو کچھ ملتا نہیں. اصل میں اس کی لالچ کا گڑھ بھر نہیں پاتا. یہ ایک چیز کو پا کر دوسری کی جستجو میں لگ جاتا ہے. کسی بھی انسان کو جانچنے کا پیمانہ بھی توقعات ہی ہیں. جو ہماری توقعات پر پورا اترتا ہے. وہ ہمارے نزدیک دنیا کا بہترین انسان قرار پاتا ہے. اور جو ہماری توقعات کے برعکس ہوتا ہے. وہ دنیا کا برا ترین انسان سمجھا جاتا ہے. مطلب انسانوں کے درمیان پائیں جانے والی رنجشیں بھی توقعات کی پیداوار ہیں. اور محبتوں کا دارومدار بھی توقعات پر منحصر ہے. انسان اس بات کو سوچنے سے قاصر ہے. کہ ہر انسان کی سوچ مختلف ہوتی ہے. اور اس کی سوچ کو اپنی سوچ کے معیار پر رکھ کر نہیں پرکھنا چاہیے. جب انسان کسی دوسرے کی سوچ کو آہنی سوچ کے معیار سے دیکھتا ہے. تو ان کے درمیان اختلافات کا آغاز ہوتا ہے. جو کسی بڑے خطرے کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے. بسا اوقات تو ایک دوسرے کی جان تک لینے سے گریز نہیں کیا جاتا. والدین، بچوں اور میاں بیوی کے درمیان اختلافات کی بنیادی وجہ بھی توقعات ہی ہیں. ہم دوسروں سے ایسی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں. جن کی تکمیل ممکن ہی نہیں ہوتی. توقعات کے گراف کو ہمیشہ محدود رکھنا چاہیے. اس سے آپ کو تکلیف نہیں ہوتی. اور نہ ہی رشتوں میں ڈراریں پڑتیں ہیں. توقعات ایسا عنصر ہے. جو زندگی کو خوش گوار بھی بنا دیتا ہے. اور یہی زندگی کو عذاب بھی بنا دیتا ہے. توقعات کو اتنا وسیع نہ کرے. کہ اچھے سے اچھے رشتے سے ہاتھ دھونا پڑ جائے. توقعات کا ہونا برا نہیں. مگر ناجائز توقعات رشتوں کے حسن کو برباد کر دیتی ہیں. والدین، بہن و بھائیوں، عزیزوں و اقارب، دوست و احباب کے درمیان توقعات برقرار کرتے وقت حد سے گریز نہیں کرنا چاہیے. جب وہ آپ کی توقعات پر پورا نہیں نہیں اترتے. تو رشتوں میں محبتوں کی جگہ نفرتیں لے لیتی ہیں. توقعات کائنات اور انسانی وجود کے لیے سود مند ہیں. مگر ایک حد تک. جب توقعات حد سے تجاوز کر جاتیں ہیں. تو یہ وجود کائنات اور انسانیت کے لیے زہر قاتل بن جاتیں ہیں. خدارا اپنی توقعات کے پیمانے کو اپنے کنڑول میں رکھے. اس سے آپ کی زندگی جنت بن جائے گی.

Comments (0)
Add Comment