چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ معاملے کی سماعت کررہا ہے جس میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان بینچ کا حصہ ہیں جب کہ حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان دلائل دے رہے ہیں۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویزپڑھ کر سنائیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کون سی چیزیں ہیں جو ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتیں، تمام ہائیکورٹس سے تجاویز مانگی ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سماعت کے آغاز سے پہلے کچھ چیزوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، سپریم کورٹ کی کمیٹی نے آرٹیکل 184/3 کے تحت سماعت کا فیصلہ کیا ہے کہ جو ججز اسلام آباد میں دستیاب ہیں سب کو بلا لیا جائے، اس معاملے پر سماعت کے لیے ججوں کو منتخب نہیں کیا گیا اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کو بینچ سے الگ کیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس پر اپنا حکم نامہ بھی جاری کیا، ہر جج کا نقطہ نظر اہم ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس یحییٰ کی سماعت سے معذرت کو آسان معاملہ نہ سمجھاجائے، میں نے نشاندہی کی تھی کہ شاید اگلی سماعت پر فل کورٹ ہو مگر دو ججز کی دستیابی نہیں تھی اس لیے فل کورٹ نہِیں بلائی جا سکی، دیگر دستیاب ججز ملے کہ سماعت ملتوی ہوئی تو مسئلہ ہوگا،ججز نے کہا پہلے ہی ملک میں تقسیم ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ شاید لوگ عدلیہ کی آزادی سے زیادہ اپنے نقطہ نظرکے پرچار میں دلچسپی رکھتےہیں، یہ انتہائی تکلیف دہ تھا کہ سابق چیف جسٹس پر تنقید کے نشتر برسائے گئے، اگرکوئی اپنی مرضی اس عدالت پر مسلط کرنا چاہے تو وہ بھی مداخلت ہے اور مداخلت اندر سے بھی ہوسکتی ہے باہر سے بھی، مداخلت حساس اداروں، آپ کے ساتھیوں، فیملی کی طرف سے، سوشل میڈیا کی طرف سے اورکسی بھی طرف سے ہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کنڈکٹ سے دکھائیں گے کہ مداخلت ہے یا نہیں، ججزکا حکم نامہ دکھاتا ہے، بتاتاہے کتنی مداخلت ہوئی ہے اور کتنی آزادی ہے کتنی نہیں، ہم نہیں سمجھتے کہ ہم مداخلت کا معاملہ سنجیدگی سے نہیں لیتے۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے اس بات کی توثیق کی ہے جو اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے پاس موقع ہے کہ اس معاملے کو حل کریں اندرونی دباؤ ہو یا بیرونی دباؤ ہو ہمیں اسے دور کرنا ہے، ہمیں ہائیکورٹس اورعدلیہ کو بااختیار بنانا ہے، ہمارے پاس اس سے متعلق سنہری موقع ہے اور ہمیں کوئی مخصوص طریقہ کاربنانا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ صرف مداخلت نہیں بلکہ ہمارے دو ججز کو ٹارگٹ کیا گیا، اگرکوئی بھی مثبت تجاویز دینا چاہتا ہے چاہے وہ پارٹی (کیس میں) ہے یا نہیں وہ دے سکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نے نوٹس لیا ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے جب کہ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہمیں مداخلت کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرنا ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر میرےکام میں مداخلت ہو اور میں نہ روک سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے۔
جسٹس اطہر نے کہا کہ ریاست کو عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے، میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں رہا کسی نے مداخلت نہیں کی، جسٹس بابر ستار کےساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ سامنے ہے۔