تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی کی رپورٹ بھی موصول ہو چکی ہے جس کے مطابق چینی انجینئرز کی گاڑی بلٹ پروف تھی لیکن بم پروف نہیں تھی تاہم سی ٹی ڈی خیبرپختونوا کی رپورٹ کے مطابق چینی انجینئرز کی گاڑی بلٹ پروف نہیں تھی۔
رپورٹ میں لکھا ہے کہ قافلےکی نقل و حرکت کی اطلاع روانگی سے ایک دن قبل 25 مارچ کو روایتی میل کےذریعے دی گئی تھی جو 7 دن پہلے دی جانی چاہیے تھی۔ اسی طرح ڈائریکٹر سکیورٹی داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ نےصرف ڈی پی او اپرکوہستان کو اطلاع دی تھی، نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹرویز پولیس اور دیگر ڈی پی اوز کو اطلاع نہیں دی گئی جبکہ واپڈا نے انٹر سٹی موومنٹ کی پیشگی منظوری بھی نہیں لی تھی۔
رپورٹ کے مطابق ڈی پی او اپرکوہستان کو 24 مارچ کو واٹس ایپ پر قافلےکے بارے میں معلومات ملیں تاہم انہوں نے کمانڈنٹ اسپیشل سکیورٹی یونٹ کو آگاہ نہیں کیا اور ڈی پی او اپر کوہستان نے صرف ڈی پی او لوئرکوہستان کو آگاہ کیا، دیگرکو نہیں کیا۔
رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ڈی پی او اپر کوہستان فارن نیشنلز سکیورٹی ڈیش بورڈ سے واقف نہیں تھے، اسی طرح غیر ملکیوں کی سکیورٹی اسپیشل سکیورٹی یونٹ لیڈ کرتی ہے جو واپڈا نے اپنے سکیورٹی گارڈز، ایف سی اور گلگت اسکاؤٹس کے ذریعے دی تھی۔
رپورٹ کے مطابق پروجیکٹ کی لاگت کا ایک فیصد سکیورٹی کیلئے مختص کرنا ہوتا ہے، واپڈا نے سکیورٹی کیلئے اسپیشل سکیورٹی یونٹ کےساتھ معاہدہ نہیں کیا۔
سکیورٹی کیلئے رقم مختص کرنےکے معاملے سے واپڈا اور ایس ایس یو کے درمیان عدم تعاون کی فضاء قائم ہوئی تاہم کمانڈنٹ ایس ایس یو نے انکوائری کمیٹی کے سامنے ذمہ داری نہ لینے کا تسلیم کیا۔
تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق ڈائریکٹر سکیورٹی داسو ہائیڈرو پروجیکٹ اورکمانڈنٹ اسپیشل سکیورٹی یونٹ سکیورٹی لیپس کے ذمہ دار ہیں۔
یاد رہے کہ بشام میں چینی انجینئرز کی گاڑی پر ہونے والے خود کش حملے میں خاتون سمیت 6 چینی باشندے جاں بحق ہوئے تھے۔
اس واقعے کے بعد صدر پاکستان، وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے چینی سفارتخانے کا دورہ کر کے اپنے سب سے قریبی دوست ملک کے باشندوں پر ہونے والے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی اور چینی باشندوں کی سکیورٹی مزید سخت کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔