تحریر: سید شاہد عباس کاظمی
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، یہاں افراد اس معاشرے کی اکائیاں ہیں۔ مختلف اکائیاں مل کر ہی معاشرہ تشکیل کرتی ہیں۔ اور بعض اوقات کوئی ایک اکائی معاشرے کا اس طرح سے حصہ نہیں رہتی جیسی اللہ نے اس کو صلاحیت دی ہے تو پھر معاشرے کی دیگر اکائیوں کی مدد سے اس اکائی کی تشکیل نو ممکن ہو پاتی ہے یا پھر دیگر اکائیاں مل کر جہاں پہ کمی ہو اس کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہیں جب تک کہ وہ اکائی دوبارہ مکمل فعال نا ہو جائے۔ معاشرے کی اکائیاں یعنی افراد اگلے مرحلے میں رشتوں کی ایک ایسی ڈور میں بندھ جاتی ہیں جنہیں قدرت مختلف ناموں سے پکارتی ہے۔ ماں، باپ، بہن، بھائی، دوست، احباب، عزیز، اقارب وغیرہ۔ رشتوں کی اس تسبیح کے تمام دانے اپنی الگ اہمیت اور کردار رکھتے ہیں جس سے معاشرے کے مجموعی رجحانات ترتیب پاتے ہیں۔ اور ان میں توازن سے ہی انسان مشکل سے مشکل مرحلہ بھی زندگی کا آسانی سے طے کر جاتا ہے۔ کسی بھی شخص کے لیے سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ صحت کے حوالے سے رب کریم نے جتنی بھی نعمتوں سے نوازا ہے ان سے نا صرف مکمل طور پر زندگی کو پرلطف بنائے بلکہ صحت کے اس انمول خزانے پہ رب کریم کا شکر بھی ادا کرئے۔ قدرت کی کسی آزمائش کی صورت میں صحت کے حوالے سے انسان جب کسی مشکل مرحلے پہ آتا ہے تو علاج اور اس کے ارد گرد موجود افراد اس کی ڈھال بن جانتے ہیں۔ لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ اصل میں اس سے بھی بڑھ کر کچھ ہے جو انسان کو بیماری سے لڑنے کے لیے حوصلہ دیتا ہے اور انسان کی طاقت بن جاتا ہے۔ اور وہ ہے انسان کا اپنا حوصلہ۔ آپ کے ارد گرد اگر مخلص افراد موجود ہیں تو یہ آپ پہ قدرت کا خصوصی کرم ہے۔ لیکن اگر آپ کی روح میں خدا نے یہ صلاحیت رکھ دی ہے کہ آپ کے اندر اتنی طاقت آ جاتی ہے کہ آپ مشکل سے مشکل مرحلے میں بھی ہمت نہیں ہارتے تو یقین جانیے آپ خدا کے ان چند چنے ہوئے افراد میں سے ہیں جن پہ رب کریم کی عنایات ہوتی ہیں۔ ایسے ہی ایک فرد سے ملاقات اس کالم کی وجہ بنی۔ کیوں کہ ہمارے ارد گرد کچھ ایسی کہانیاں جنم لیتی ہیں کہ جنہیں تحریر کرنا دیگر افراد کے لیے نا صرف ایک طاقت بن جاتا ہے بلکہ وہ اپنے اندر لڑنے کا جذبہ محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ملاقات ایسے فرد سے تھی کہ جس نے اپنی زندگی کی رنگینی اور خوبصورتی میں کینسر جیسے عفریت کو شکست دی۔ بظور خاص کالم لکھنے کی وجہ یہ نہیں کہ اس فرد نے کینسر کو شکست دی۔ بلکہ حیران کن پہلو یہ ہے کہ نا صرف شکست دی بلکہ پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ ہم اپنے ارد گرد ایسی ہزاروں مثالیں دیکھ سکتے ہیں کہ جو لوگ کینسر کے علاج سے صحت یاب بھی ہو جاتے ہیں ان کی امید مر جاتی ہے۔ یوں کہیں کہ کینسر ان کی امیدیں کھا جاتا ہے۔ اس بیماری کا علاج اتنا تکلیف دہ اور طویل ہے کہ انسان بے بس ہو کر ہمت ہار جاتا ہے۔ آپ کے ارد گرد مخلص لوگوں کا ہجوم بھی ہو جو آپ کی ایک پکار پہ دوڑے چلے آئیں تو بھی حقیقی معنوں میں آپ اس موذی بیماری کو اس وقت شکست دینے میں کامیاب ہوتے ہیں جب آپ کے اندر سے ایک آپ کا ایک نیا جنم ہو۔ اور آپ زندگی کی خوبصورتی کو پہلے سے زیادہ محسوس کرنا شروع کر دیں۔ کچھ ایسا ہی اس ذات میں دیکھا جس سے ملاقات نے یہ احساس دلایا کہ موٹیویشنل اسپیکرز جن کی بازگشت میڈیا میں نظر آتی ہے، وہ نہیں ہیں، بلکہ ایسے افراد حقیقی معنوں میں موٹیویشنل اسپیکر ہیں جو اس طرح کینسر جیسی بیماریوں سے لڑتے ہیں کہ دیکھنے والا حیران رہ جاتا ہے۔ معاشرے کے لیے کینسر ایک ایسی بیماری ہے جو خاندانوں کو توڑ دیتی ہے۔ لیکن کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو کینسر کو اپنی زندگی کو مزید کامیاب بنانے کا راستہ بنا لیتے ہیں۔ اور یہ ذات بھی ایسی ہے کہ انہوں نے نا صرف کینسر کو شکست دے گی۔ بلکہ ان کی باتوں کو سنتے ہوئے ایک عجیب سی طاقت محسوس ہوتی ہے اور دل چاہتا ہے کہ یہ باتیں ختم نا ہوں۔ معاشرہ اگر اب تک قائم ہے تو ایسے ہی مضبوط ہمت والے افراد سے۔ یہ زباں اہلِ زمیں ہے۔