شہباز شریف نے فیض آباد دھرنا کمیشن کو دیے گئے بیان میں کہا کہ پنجاب میں امن و امان کے معاملات پر کابینہ کی ذیلی کمیٹی برائے امن تشکیل دی گئی تھی جو صوبائی وزیر قانون اور بعض دیگر اہم صوبائی وزراء پر مشتمل تھی۔
انہوں نے اپنے بیان میں بتایا کہ ٹی ایل پی پر پابندی سے متعلق انٹیلی جنس کی کوئی رپورٹ صوبائی حکومت سے شیئر نہیں کی گئی تھی، اس وقت فیض آباد دھرنے کا اندازہ نہیں تھا، ڈی سی راولپنڈی، کمشنر، سی پی او اور آر پی او کو ذیلی کمیٹی برائے امن و امان سے واضح ہدایات موصول ہوئی تھیں، افسران کو ہدایات تھیں کہ اسلام آباد انتظامیہ کو ہر ممکن تعاون فراہم کریں۔
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کا اپنے بیان میں کہنا تھا کسی تنظیم پر پابندی انسداد دہشت گردی ایکٹ میں دیے گئے سخت معیار کے تحت ہوتی ہے، پابندی وزارت داخلہ اپنے مینڈیٹ کے مطابق عائد کر سکتی تھی، طاقت کے استعمال سے ملک میں امن و امان کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
شہباز شریف کے بیان میں کہا گیا کہ ٹی ایل پی کے رہنماؤں کے ساتھ سیاسی مذاکرات ہو رہے تھے، ٹی ایل پی اور وفاقی حکومت کے درمیان معاہدے میں اتفاق کیا گیا تھا، طے ہوا تھا ٹی ایل پی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات قانونی طریقہ کار کے بعد واپس لیے جائیں گے۔