تحریر: نوید مغل
نوشکی بلوچستان کا ایک اہم ضلع ہے جو صوبائی دارلحکومت کوئٹہ سے تقریباً 147 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔یاد رہے کہ بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں ماضی میں بھی کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے باشندوں کو شناخت کے بعد اغواء اور قتل کرنے کے واقعات ہو چکے ہیں۔
رواں سال کے اوائل میں بھی بلوچستان کے شورش زدہ علاقے کیچ سے نامعلوم مسلح افراد نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے پانچ مزدوروں کو اغواء کیا جو کہ تحصیل ہوشاب میں نجی موبائل کمپنی کے ایک موبائل ٹاور کی تنصیب کے کام میں مصروف تھے۔
اس سے قبل سال 2013 میں کوئٹہ سے پنجاب جانے والی آٹھ مسافر بسوں کو بولان کے علاقے مچھ کے قریب روک کر شناخت کے بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والے 14 مسافروں کو قتل کر دیا گیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ سلطان چڑھائی اور ملحقہ علاقے سیکورٹی کے حوالے سے حساس ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہ اکہ حملہ آوروں کا تعلق کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں سے ہو سکتا ہے تاہم اس واقعے کی ذمہ داری تاحال کسی بھی گروہ یا تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔
دو کشتیوں میں سوار ہو کر دہشتگردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جا سکتی، بلا تفریق، مسلک، ملت، سیاسی اور لسانی فرقہ بندی ہر دہشتگرد کو بنا کسی ابہام کے انجام تک پہنچانا ہو گا۔ حکومت، ادارے، سیاست اور شہری آزادی، یہ سب ریاست کے دم سے ہیں، پاکستان ہے تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ نہیں۔ قوم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کا بھرپور اختیار حکومت کو دیا ہے جس نے مختلف اختیارات اداروں کو سونپے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سیکورٹی اداروں اور پولیس کی قربانیوں کو قوم سلام پیش کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج اور پولیس نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ مگر کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ سب سے بڑی قربانی عوام نے دی ہے، ان گنت بے گناہ لاشے، لاکھوں اجڑے خاندانوں کی سوالیہ نگاہیں آخری فتح کی منتظر ہیں۔ بیشمار یتیم بچے، بیوہ عورتیں اور سوگوار مائیں ہم سے سوال پوچھنے کا پورا حق بھی رکھتے ہیں کہ تباہی کی یہ داستان کب انجام تک پہنچے گی؟
آج کے حالاتِ حاضرہ آنے والے کل کی تاریخ بن جائیں گے ۔ سماجیات اور سماجی تاریخ سازی کا کلیہ بھی یہی ہے کہ ہر گزرا ہوا کل ہماری تاریخ اور ہر آنے والا دن ہمارا مستقبل ہے۔ یوں تو پورا عالم انسانی ہی ماضی ‘ حال اور مستقبل کی گزرگاہوں کا مسافر ہے لیکن مسلمانوں کا حال شاید دوسری اقوام سے مختلف ہے۔ ہماری تاریخ کا ہر باب لہو رنگ اور ہر صفحہ اشک خوں سے رقم ہے لیکن اس پر تعجب یوں نہیں کہ مسلمانوں کے نئے سال کا آغاز بھی قربانی کی لازوال اور بے مثال حکایت سے ہے ۔ ان کے سال کا اختتام بھی عظیم تر قربانی کی تمثیل کا مرقع ہے۔ اسی لئے تو شاعر مشرق نے کہا تھا۔
آج کرہ ارض پر جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں کسی نہ کسی ظلم‘ ناانصافی اور غیر مساوی سلوک سے دوچار ہیں۔ وجوہات خواہ سیاسی نوعیت کی ہوں یا مذہبی اس سے بحث نہیں لیکن صرف انسانیت کے تناظر میں ہی حساب لگایا جائے تو ایسے ایسے انسانیت سوز واقعات اور سانحات سامنے آتے ہیں کہ اشرف المخلوقات انسان کے چہرے پر نادیدہ طمانچوں کی صدا سنائی دیتی ہے۔ مہذب اور متمدن ہونے کی دعویدار دنیا اپنی تہذیب کے ملبے پر کھڑی ہو کر نجانے کون سے انسانی حقوق اور آداب زندگی کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے۔ مسئلہ فلسطین کے ستم گزیدہ مسلمانوں کا ہو یا کشمیر میں بہتے ہوئے مسلم لہو کا‘ لبنان‘ عراق و ایران کی باہمی مخاصمت ہو یا برما کی ”امن پسند“ سرزمین پر نسل کشی کا شکار ہونے والے روہنگیا کے مسلمانوں کا جس طرف بھی نگاہ دوڑائیں آہ و بکا‘ چیخ و پکار اور بہتا ہوا لہو جلتے ہوئے گھروں کا حصار باندھے نظر آتا ہے۔ لیکن عالم اسلام کی خاموشی اور بے حسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ سے صبر و برداشت کا سبق کچھ زیادہ ہی پڑھ لیا ہے۔ چنانچہ ہم بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس بات کے منتظر ہیں کہ شاید آسمان پر ابابیل کے غول نمودار ہوں گے جو اپنی چونچ میں دبی کنکریاں برسا کر وقت کے ابرہوں کو ہاتھیوں سمیت نیست و نابود کر ڈالیں گے۔ اب نجانے ہمارا یہ صبر و انتظار درست ہے یا غلط۔
لیکن کیا کیا جائے کہ من حیث القوم ہم نے خودداری اور غیرت کے پیمانے بدل ڈالے ہیں یا پھر یوں کہیے کہ مسلسل عذابوں سے گزر کر ہم نے اپنے اعصاب اور حواس کو پتھرا دیا ہے۔ جیسے ایک سرجن مسلسل آپریشن کرتے کرتے رحم اور ترس جیسے انسانی جذبات سے عاری ہو جاتا ہے شاید ہم نے بھی اپنی ذات پر انفرادی اور اجتماعی حوالے سے ترس کھانا چھوڑ دیا ہے۔ اس کا سبب خاص طور پر ہم پاکستانیوں کا سیاسی عدم استحکام‘ بھوک افلاس‘ بیروزگاری‘ ناانصافی اور طبقاتی نظام زندگی بھی ہو سکتا ہے لیکن حقیقت حال تو یہ ہے کہ 1947ءکی لہو رنگ ہجرت میں بچ جانے والی قوم 1965ء کی غیر اعلانیہ مسلط کردہ جنگ سے نمٹنے والی قوم ۱۹۷۱ءمیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا دکھ اٹھانے والی قوم‘ ۱۹۷۷ءکے مارشل لاءکے نتائج بھگتنے والی قوم ۱۹۹۹ءکے ہنگامی حالات میں زندہ رہ جانے والی قوم‘ ۲۰۰۲ءکی امریکی جنگ میں ملوث ہو جانے والی قوم‘ ۲۰۰۵ءکے زلزلے سے کانپ اٹھنے والی قوم‘ ۲۰۱۰ءکے سیلاب میں اپنا سب کچھ بہا کر زندہ بچ جانے والی قوم اور اس کے بعد ۲۰۱۱ءسے لے کر آج تک بدستور مہنگائی‘ لوڈشیڈنگ‘ خودکش دھماکوں سے چیتھڑے بن کر اڑ جانے والی قوم کے اعصاب واقعی اتنے آہنی اور سنگین و سنگلاخ ہو چکے ہیں کہ اب قرب و جوار میں برپا ہونے والے طوفان کے منظر سے ہمارا دل نہیں دہلتا۔ ہماری آنکھیں نم نہیں ہوتیں۔ ہمارے سینے میں جذبات اور احساسات کے طوفان برپا نہیں ہوتے لیکن آخر کب تک؟صدیوں قبل معرکہ حق و باطل ہوا تھا حسینؓ و یزید کے درمیان لیکن تاریخ کا تسلسل کہہ رہا ہے کہ شاید حق و باطل کی معرکہ آرائی ابھی جاری رہے گی اور کب تک جاری رہے گی اس سوال کا جواب تو کوئی آنے والا مورخ ہی رقم کرے گا۔ ہم تو سربہ زانو صرف یہی سوچ رہے ہیں کہ یہ آزمائش و امتحان کب تک‘ آخر کب تک؟ ممکن ہے ہماری ذات کی دیواروں سے سرٹکرانے والے اس سوال کا جواب وقت کے کسی دانشور اور اہل بصیرت کے پاس ہو۔ کاش حالات و سانحات کی گہرائی تک پہنچنے والا کوئی انسانی سماجیت کا نباض ہمیں بتا سکے کہ آخر کب تک؟
حالات کی کربلاؤں سے مسلسل گزرنے کا عمل آخر کب تک جاری رہے گا۔ جدید علوم میں ترقی کا ڈھنڈورا پیٹنے والا انسان خلاؤں کو تسخیر کر رہا ہے لیکن افسوس انسان کو زمین پر جینے کا سلیقہ نہ آسکا۔ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کا راگ الاپتے ہوئے چاند ستاروں پر بستیاں آباد کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن اپنے رویوں سے کرہ ارض پر چلنے والے انسانی چراغوں کو مسلسل بجھائے چلے جا رہے ہیں۔ یہ کونسی دانش گاہ کا دیا ہوا سبق ہے؟ یہ کس بصیرت کی نکتہ آفرینی ہے؟ یہ کون سے اخلاقی اقدار کا جنازہ ہے جو آج پوری انسانیت نے اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیر انسانی رویوں کی اس چراگاہ میں ہم کب تک سانس لے سکیں گے۔ آخر کب تک؟