تحریر:عاصم نواز طاہرخیلی
میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارا تعلیمی معیار عہد حاضر کے تقاضوں پر پورا کیوں نہیں اترتا۔ ہر سال بجٹ میں حکومت اس معاملے میں اتنا زیادہ پیسہ مختص کرتی ہے۔ ادارے موجود ہیں۔ نظام موجود ہے لیکن نتیجہ مطلوبہ احداف تک کیوں نہیں پہنچ پاتا۔ بہت سوچ بچار کے بعد مجھے تو یہی بات سمجھ آتی ہے کہ ہمارا پرائمری سے اعلی تعلیم تک کا کورس جدید تقاضوں سے قطعاََ ہم آہنگ نہیں اور نہ ہی میرے سمیت کئی اساتذہ و پروفیسرز کی بڑی تعداد خود میں کوئی تبدیلی لاتی ہے۔
وہی پرانا رٹے اور نوٹس پر مبنی نظام جو طلباء اور اساتذہ دونوں کی تعلیمی استعداد کو بڑھنے ہی نہیں دیتا۔ جو نظریات و خیالات سروس کے آغاز میں کتابوں اور گائیڈز سے ترتیب دے کر محفوظ کیے جاتے ہیں وہی پنشن سٹارٹ ہونے تک کتابوں میں خاطر خواہ تبدیلیاں نہ ہونے کے باعث ان کے مدد گار ہوتے ہیں۔
استاد کا اک تھانیدار جیسا تصور جو نالائق یا بدتمیز شاگرد کو راہ راست پر لانے کے لیے اک مجرم کی طرح صرف سزا پر انحصار کرتا ہو۔ اونچی اور رعب دار آواز کے سائے میں پروان چڑھنے والے شاگرد قوت اعتماد سے عاری اور رٹی رٹائی کتاب اور جملوں کے باعث اپنے ماضی کو صرف درخشاں سمجھتے ہوئے اپنے بادشاہوں کو ہیرو اور غیروں کو ولن سمجھنے سے آگے جا ہی نہیں پاتے۔ ایسے اساتذہ اور شاگردوں پر مشتمل معاشرہ سمارٹ فون پر علم و مشاہدہ میں بہت آگے نکل چکے دور حاضر کے بچوں کو کیسے مطمئن کر پائے گا۔ صرف وراثت کی بنیاد پر بننے والے بادشاہوں کے قصوں اور کہانیوں سے آج کی نسل کس طرح ہیرو تلاش کر سکتی ہے۔ المختصر عام سے زہن کے ساتھ خاص باتیں نہ سمجھائی جا سکتی ہیں نہ اثر کرتی ہیں۔
دوسری طرف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی تقریباََ یہی حال ہے فقط طریقہ بدلا ہوا ہے۔ کالج اور یونیورسٹی کا پروفیسر ہاتھوں میں چھڑی اور آواز میں لاؤڈ سپیکر بےشک نہیں رکھتا لیکن بے انتہا سنجیدگی سجائے اپنی ڈگریوں کا تمغہ پہنے قول اور فعل کے تضاد کے ساتھ طلباء کو سوال سے دور رکھنے کی کوشش میں پڑے رہتے ہیں۔ طالب علم اگر سوال کر بیٹھے تو دور حاضر کے تقاضوں اور زمینی حقائق سے ہٹ کر ماضی کے جینیئس لوگوں کی کتابیں پڑھانے لگتے ہیں۔ اسے آپ خاص لوگوں کی تعلیم پر عام لوگوں کی دادا گیری سے تشبیہہ دے سکتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ استاد اور پروفیسر کو پتھر پر لکھی تحریر کے بجائے اک سیلٹ یا سمارٹ فون کے کِیبورڈ (Kea board) جیسا ہونا چاہیے جس پر لکھی تحریر وقت کی ضرورت کے مطابق مٹائی یا تبدیل ہو سکے۔ وہ معلم خود کو جدید دور سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اپنے علم کو جدید سے جدید تر کرتا چلا جائے اور اس کے زہن میں لکھی تحریریں بہتر سے بہترین ہوتی چلی جائیں۔ یوں اس سے سیکھنے والے بھی رٹے رٹائے جملوں کے ساتھ پروان چڑھنے کے بجائے نئے دور کے ساتھ پر اعتماد و پر وقار انداز میں چل سکیں گے۔
مندرجہ بالا تمام باتوں کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ تمام اساتذہ و پروفیسر ایسے ہی ہیں۔ ہر دور میں اک قلیل تعداد ایسے بھی رہی ہے کہ جو درست ترین معیار کے تعلیم یافتہ تھے اور اب بھی موجود ہیں۔ المیہ صرف یہ ہے کہ ہمارا سسٹم ہی ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں امتحانات میں نمبروں کی دوڑ ہے اور امتحانات بھی رٹے کو تقویت دینے والے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عالمی معیار کی شخصیات تشکیل دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ اب کچھ تحریک چلی ہے تعلیمی معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کی اور مار نہیں پیار اپنانے کی۔ ساتھ ہی مقابلے کی فضا عام ہونے سے والدین اور طلباء خود بھی متحرک ہونے لگے ہیں۔ اب امید ہے کہ مطلوبہ معیار تک پہنچتے ہی اس کے اچھے اثرات بہت تیزی سے رونما ہونگے کیونکہ بقول شاعر:
“زرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی”