فردوس نثار
فردوس نظر
بچپن سے ہی جن جگہوں کے بارے میں یہ سن رکھا تھا کہ یہ بڑی بری جگہ ہیں یہاں جرائم پیشہ لوگوں کی یہ اماجگائیں ہیں اور وہاں ہماری نگاہیں جو ہیں نہیں جانی چاہیے اور ہم جن جگہوں کے بارے میں اپنے اندر اشتیاق رکھتے ہیں وہ عجائب گھر ہیں وہ چڑیا گھر ہیں ۔ وہ یونیورسٹیاں ہیں وہ فنون لطیفہ کے ادارے ہیں لیکن یہ بات اپنی سمجھ سے ہمیشہ بالا تر رہی ہے کہ جیل خانوں کے اندر بھی بہترین اور صاف ماحول اس کی
خوبصورتی کا مرقع ہو سکتا ہے ۔ ظہیر ورک جیسے سربراہ کی دورس نگاہ اور قائدانہ صلاحیتوں کا اعجاز اور ان کے اندر کی خوبصورتی ، اور ان کی سوچ اور فکر کی روشنی کیمپ جیل کے اندر ظلمتوں اور اندھیروں کو دور بھگا رہی ہے اور اتنا زبردست کام سر انجام دیا ہے کہ دل و دماغ ابھی تک ان کی اس کاوش کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں میری مراد جیل میں لائبریری کا قیام اور بہت ہی نایاب کتب اور وہاں ان سے استفادہ کرنے کے لئے ٹیچر اور دیگر عملہ کا وجود ہونا بہت عمدہ اقدام ہے اس کے ساتھ ساتھ خوبصورت پھولوں کی کیاریاں اور دل ربا مناظر یہ جیل خانہ میں دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ واقعی جیل خانہ اس وقت خوبصورت جگہ کی صورت میں موجود ہے ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اچھے اور برے دونوں قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے ہیں اور بروں کو اچھا بنانے میں ادارہ رہائی کی سربراہ محترمہ سیدہ فرح ہاشمی اور ان کے ہم سفر اس سفر میں موجود ہیں ۔ ان دونوں ہم سفروں کی کارکردگی دیکھ کر ضامن فاؤنڈیشن کی سینیئر نائب صدر سمیرہ سلیم اور میں ذاتی طور پر ان کی ان مشکلات میں ضا من فاؤنڈیشن کی چئرپرسن اپنی پوری استطاعت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ ہمارا صالح معاشرہ اگر اخلاقی حوالے سے کام کرے تو یہ بچے جو اس وقت جرم کی دنیا سے ہو کر قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں ان کی اصلاح پہلے ہو جائے تو یہ یقینی طور پر ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ بچوں کی عزت نفس کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے اور یہ بچے جو میں دیکھ کر ائی ہوں حقیقت یہ ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس سکول میں داخل ہیں اور پورے وقار کے ساتھ اور پورے افتخار کے ساتھ وہ یہاں اتے ہیں اور ان پر کوئی بوجھ اور دباؤ نہیں ہے اور ان کی فکری رعنائیوں کے چراغ روشن ہیں میں محسوس کرتی ہوں کہ وہ اپنے اپ کو قید نہیں بلکہ ازاد تصور کرتے ہیں ان کے لیے جو سہولیات مہیا کی گئیں ہیں وہ قابل ستائش ہیں اور جس طرح یہ سب سہولیات اور سسٹم تیار کیا گیا ہے اس کے پیچھے ظہیر ورک صاحب کا منصوبہ ساز ذہن کار فرما ہے ایسے سربراہ کا وجود ہر ادارے میں ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جیل کے اندر ان بچوں کے ہاتھ سے بنی ہوئی مصنوعات بڑی دیدہ زیب ہیں ۔ ضامن فاؤنڈیشن اور ادارہ رہائی کے اشتراک سے بچوں کو عید کے تحائف پیش کیے گئے اور ہمارے ساتھ ملک کے نامور ادیب و خطیب منشا قاضی بھی موجود تھے اور ہم نے خاص طور پر ان کے ہاتھ سے بچوں کو تحائف تقسیم کروائے اور اس سلسلے میں بچوں کے چہروں پر مسرت و شادمانی کی چاندنی بکھر گئی ۔ ادارہ رہائی کی سربراہ فرح ہاشمی کا وجود بچوں کے لیے ماں کا درجہ رکھتا ہے ۔ بچوں سے شیخ عدیل نے بڑا متاثر کن تعارف کروایا اور ضامن فاؤنڈیشن کی سینئر نائب صدر محترمہ سمیرا سلیم نے اپنے خطاب میں بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں ائندہ بہترین زندگی کی نوید دی ۔ بچوں کو انہوں نے بتایا کہ شاخ گل پہ گل انے سے پہلے خار اتے ہیں ۔ ائندہ اپ کی زندگی بہترین زندگی ہوگی اور اپ کو کسی قسم کا پچھتاوا نہیں ہوگا اپ اپنے ضمیر کی عدالت میں موجود ہیں اور اپ کو یہ بات یہاں جو مل رہی ہے وہ شاید باہر کسی جگہ اپ کو حاصل نہ ہو سکے اس سلسلے میں بہترین ماحول ہی اچھی زندگی کا ضامن ہے یہاں اگر قیدیوں والا ماحول میں دیکھتی تو یقینی طور پر اپ کی زندگیاں خراب ہو رہی ہوتی اور اس وقت اپ کے لیے کیمپ جیل کے سربراہ ظہیر ورک نے خوبصورت ماحول تخلیق کیا ہے اور اس ماحول میں انسان خوش رہتا ہے اور اپ کو بہترین قسم کے بستر مل چکے ہیں جن پر اپ بالکل اسی طرح سو رہے ہیں جس طرح اپنے گھر میں سوتے ہیں ۔ محترمہ فرح ہاشمی نے اپنے بچوں کو اپنی مامتا کا احساس دلایا اور ان کی انتہائی خوبصورت نگہداشت کے لیے اپنی ذات کو وقف کر دیا اور اس سلسلے میں ان کے شریک سفر کا تعاون بھی انہیں حاصل ہے اور ائندہ ضامن فاؤنڈیشن کی پوری ٹیم اپنا دست تعاون دراز کرتی رہے گی ۔ کیمپ جیل کے سربراہ ظہیر ورک نے خوبصورت ماحول کی تخلیق میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ جناب ظہیر ورک قول کے نہیں عمل کے ادمی ہیں جو درد دل اور اچھی سوچ بھی رکھتے ہیں ہم نے تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھ کر یہ محسوس کیا کہ کام کرنے والے لوگ باتیں بہت کم کرتے ہیں میں نے ان کو ایک با عمل سربراہ کی حیثیت سے کام کرنے والا پایا ۔ کاش ہمارے پاکستان کے سارے سرکاری ادارے اور ان میں کام کرنے والے ظہیر ورک کے طرز و اسلوب کو اپنا لیں تو میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان تعمیر و ترقی کی دنیا میں بہت اگے نکل جائے گا ۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ظہیر ورک جیسے سربراہ کی نگاہ اور دل نواز شخصیت کی موجودگی جو ماحول میں اسودگی پیدا کر سکتی ہے ۔
نگہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے