رپورٹ وفاقی پولیس کی جانب سے وزرات داخلہ کو بھجوائی گئی ہے۔ جس میں بتایا گیا کہ اس معاملے پر الگ الگ دو مقدمات درج کیے جا چکے ہیں، خط میں آرسینک پاؤڈر پایا گیا جس کی مقدار زہریلی نہیں تھی، آرسینک جن جن پنسار سے ملتا ہے ان کا بھی ڈیٹا اکٹھا کر لیا گیا ہے، تفتیشی ٹیمیں ان تمام دکانوں کے دورے کر رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق محکمہ انسداد دہشتگردی کی دو ٹیمیں راولپنڈی اور اسلام آباد کے لیے بنائی گئی ہیں، سی سی ٹی وی فوٹیج اور خط بھیجنے والوں کے نام نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو بھجوا دیے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ لفافوں پر تحریر اور سیاہی کو تجزیہ کے لیے ایکسپرٹ کو بھجوا دیا گیا, خط پر لگائی جانے والی پوسٹل اسٹیمپ کا بھی تجزیہ کیا جارہا ہے, سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ جمع کراوائی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ 2 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 ججوں کو پاؤڈر بھرے مشکوک خطوط موصول ہوئے تھے جس میں ڈرانے دھمکانے والا نشان موجود تھے۔
عدالتی ذرائع نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو مشکوک خطوط موصول ہوا جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ انتظامیہ نے دہشتگردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
بعد ازاں 3 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ کے 6 ججز اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت سپریم کورٹ کے 4 ججز کو بھی دھمکی آمیز خطوط موصول ہونے کا انکشاف سامنے آیا تھا۔
لاہور ہائیکورٹ میں مشکوک خط ملنے والے ججوں میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس ملک شہزاد، جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس عابد عزیز شیخ، جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس علی باقر نجفی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ کے جن ججز کو یہ دھمکی آمیز خطوط بھیجے گئے تھے اُن میں چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں جنہیں یہ خطوط یکم اپریل کو موصول ہوئے تھے۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ چاروں خطوط میں پاؤڈر پایا گیا اور دھمکی آمیز اشکال بنی ہوئی تھیں، اِن چاروں ججز کو خطوط موصول ہونےکا مقدمہ محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) میں درج کیا گیا۔