اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہی وجہ ہے دین اسلام کی جملہ عبادات تعلیم و تربیت کے پہلو کو
مدنظر رکھ کر ترتیب دی گئی ہیں۔
رہبانیت کو مکمل طور پر مسترد کردیا گیا ہے۔ افراط اور تفریط کا دروازہ بھی بند کیا گیا ہے۔
انسان ساخت کے اعتبار سے مٹی اور روح سے تخلیق کیا گیا ہے۔
یوں کثافت اور لطافت اس مٹی کے پتلے میں اکٹھی کردی گئی ہے۔ اسی لئے روح اور بت کا جھگڑا ہوتا ہے
اور اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جھگڑے میں نقصان دونوں طرف کا ہو جاتا ہے۔
جھگڑے کے بعد صلح صفائی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ احتیاطی تدابیر کی اشد ضرورت ہے۔
شاید اسی لئے روزہ کو ارکان اسلام کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
روزہ عبادت بھی ہے، روزہ معاملات کو درست رکھنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔
غربت،افلاس اور فقروفاقہ کا احساس پیدا کرکے امیروں کو دعوت فکر دینے کا سبب بھی ہے۔
روزہ معاشی عدم استحکام کو نہ صرف عیاں کرتا ہے بلکہ مسلمانوں میں اس سلسلے میں
گہری سوچ وفکر پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے اور روزہ بدنی بیماریوں کے علاج کا بھی طریقہ ہے۔
اسی لئے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں اے ایمان والو آپ پر روزہ فرض کیا گیا ہے
جس طرح تم سے پہلی قوموں پر روزے فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔
یوں روزے کی فرضیت کا بنیادی مقصد ایمان والوں کو پرہیز گار بنانا ہے اور پرہیز گار بندہ
اسی صورت میں بن سکتا ہے اگر بت اور روح کا جھگڑا ختم ہو جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے
جب لطافت کثافت پر غالب آجائے تو قالو بلی کہنے کے تقاضے پورے ہو جائیں گے۔
معبود عبد سے راضی ہو جائے گا اور عبد دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہو جائیگا۔
زمین وزمن بچشم خود دیکھیں گے کہ انسان واقعی احسن تقویم ہے۔ تسلیم کا حاصل تقویم ہے۔
یہ پیغام دینا ہی روزے کا مقصد ہے۔
روزہ 2 ہجری میں فرض ہوا۔ قمری مہینوں میں ایک مہینہ رمضان اور اس کے دوران ہر وقت
روزہ دار عبادت کی کیفیت میں رہتا ہے۔ فجر سے پہلے اپنے رب کی رضا کے لئے کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے
اور سارا دن بھوکا پیاسا رہتا ہے۔
اس کے دل ودماغ میں یہ خیال پوری طرح جاگزیں ہوتا ہے کہ وہ عبادت کی حالت میں ہے۔
یہی وجہ ہے وہ بات بھی سوچ سمجھ کرکرتا ہے۔ سوچ کر ہی قدم اٹھاتا ہے۔
گناہوں سے بچنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔
باقاعدہ نمازیں ادا کرتا ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کو بھی یقینی بناتا ہے۔ خیرات بھی کرنے میں پہل کرتا ہے۔
بدنی طور پر اپنے جملہ اعضا کا شریعت محمدی کی تعلیمات کے مطابق استعمال
کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتا ہے
رمضان کے آخری عشرے میں لیلہ القدر کی تلاش میں ساری ساری رات جاگ کر
اپنے رب کے حضور سربسجود ہوتا ہے۔
یوں وہ روح کی لطافت کو تقویت پہنچانے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے اور
بدنی کثافتوں کے طلسم کو توڑ کر اپنی سوچ کو پاکیزہ بنانے کی ہرممکن کوشش کرتا ہے۔
بنیادی طور پر کوشش کرنا ہی تو اس کے بس میں ہے باقی تو “لکھی لوح قلم دی مائے جے
موڑ سکنی ایں تاں موڑ”۔ اتنے تردد،محنت، ریاضت اور کوشش کے بعد بندہ اپنے رب کو
منانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
اسلام میں عبادات کا یہی تو مقصد ہے
زندگی کی دوڑ بھی عجیب ہے۔ جس میں بعض دوڑنے والے بہت آگے نکل جاتے ہیں
اور بعض بالکل ہی پیچھے رہ جاتے ہیں۔
یوں وسائل کی تقسیم منصفانہ نہیں رہتی ہے۔ معاشرتی عدم استحکام پیدا ہو جاتا ہے۔
کلاس سسٹم معاشرے کے جڑوں کو کھوکھلا کردیتا ہے۔
بڑے اور چھوٹے کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ غربت اور افلاس کا لوگ شکار ہو جاتے ہیں۔
اس ساری صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک ضابطے کی ضرورت ہے۔
یقیناً روزہ عبادت ہے لیکن یہ مذکورہ معاملات کو درست رکھنے کا بھی زبردست ذریعہ ہے۔
جب ایک امیر سارا سارا دن بھوکا رہتا ہے تو اس کو احساس ہوتا ہے کہ
روز ہی بھوکے اور پیاسے رہنے والے اس کے ہم جنسوں پر کیا گزرتی ہوگی۔
یہی وہ سوچ ہے جو مسلمانوں کے معاشرتی اور معاشی نظام کو مساوات کی بنیاد پر ترتیب دیتی ہے۔
فطرانہ بھی اسی مہینے میں لازم قرار دیا گیا ہے۔
مل کر افطاری کرنے کی غرض وغایت بھی یہی ہے۔ باجماعت نماز اور پھر تراویح کا سلسلہ بھی
آپس میں مسلمانوں کو اکٹھا کر کے ان کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے کا باعث بنتا ہے۔
جب غریب اور امیر ایک ہی صف میں کھڑے ہونگے اور ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر
افطاری اور سحری کریں گے تو معاشرتی و معاشی عدم استحکام خود بخود دم توڑ جاتا ہے۔
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اس کا بھی عملی مظاہرہ ہمیں رمضان میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
اس سے ہٹ کر انسان کھانے پینے میں بڑا ہی بے تکلف ہے۔
جبکہ بدنی طور پر متعین شدہ خوراک کھانا اس کے لئے ضروری ہوتا ہے۔
صحت کا خیال رکھنا بھی اس کی ذمہ داری ہے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ احتیاط سے کام نہیں لیتا
اور پھر وہ مریض بن جاتا
اور ہسپتال آباد کرنے کا موجب بنتا ہے۔
اس اعتبار سے بھی روزہ انسان کی حفظان صحت کی تعلیم وتربیت کا ذریعہ بنتا ہے۔
اسے رمضان کے مہینے میں احساس ہوتا ہے کہ کم کھانے پینے کے کتنے فائدے ہیں۔
نیز اسراف سے بچنے کے لئے بھی روزوں کا مہینہ ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔
ان سب سے ہٹ کر بھی کئی فائدے۔ کیا کیا کریں بیان۔ بات تو سوچ بچار اور عمل کرنے کی ہے
آئیں پورے مہینے کے روزے رکھ کر دیکھتے ہیں
مذکورہ باتیں برحق لیکن بدقسمتی سے ہم روزے کے مقاصد سے شعوری طور پر آگاہ نہیں ہو سکے۔
ہم روزے بڑے ذوق شوق سے رکھتے ہیں۔ بڑھ چڑھ کر نمازیں پڑھتے ہیں۔
اپنے گھروں کے سامنے لمبی لمبی قطاریں لگوا کر خیرات تقسیم کرتے ہیں۔
سحری اور افطاری کا انتظام بڑے زور شور سے کرتے ہیں۔ ان ساری باتوں کے باوجود ہم سب سے
زیادہ مہنگائی بھی روزوں میں ہی کرتے ہیں۔
ہم اپنی مارکیٹنگ کے لئے غریبوں اور مسکینوں کو کھانے کا سامان قطاروں میں لگا کر تقسیم کرتے ہیں۔
سحری اور افطاری کا انتظام تعلقات بڑھانے کے لئے کرتے ہیں۔
غریب اور امیر کے فاصلے کو روزوں میں ہی اپنے درمیان نمایاں کرتے ہیں۔
زکوۃ، صدقات اور فطرانہ اپنے ہی نوکروں چاکروں میں تقسیم کر کے ان کو
ذہنی غلام بنانے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں۔
نمودونمائش، امارت، حقارت اور حاکمیت کا بھر پور اظہار اور غربت و افلاس کا مذاق۔ معاف کیجئے گا
یہ نہ اسلامی تعلیمات ہیں، نہ فلسفہ روزہ کا صحیح مفہوم ہے اور
نہ ہے اسلام کا وہ پروگرام ہے جس سے معاشرتی ناہمواریوں کا قلع قمع ہونا ہے۔
روزہ فقط اللہ ہو اللہ ہو نہیں ہے۔ روزہ محض بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے
اور روزہ صرف رمضان کے مہینے میں دکھاوے کے لئے محتاط رہنے کا طریقہ نہیں ہے۔
روزہ ایک مکمل تعلیم و تربیت کا جامع پروگرام ہے۔
آئیے کتاب مبین کا مطالعہ کرتے ہیں۔ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کی زندگی سے استفادہ کرتے ہیں
اور پھر روزہ رکھنے سے اپنی کپیسٹی بلڈنگ کر کے معاشرے میں
اونچ نیچ ختم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں
تب جا کر کہیں بت اور روح کا جھگڑا ختم ہوگا
اور روزہ رکھنے کے ثمرات سے ہم صحیح معنوں میں مستفید ہو نگے۔
فرمان خداوندی “روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دیتا ہوں”
تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق
26/03/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-5-scaled.webp