اسلام آباد( کورٹ رپورٹر)اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران کان کی وکلا سے
جیل میں ملاقات کروانے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس سردار اعجاز اسحٰق نے
ریمارکس دیے کہ ہم سمجھ سے قاصر ہیں کہ آن لائن ملاقاتیں ایک جیل میں قانونی مگر دوسری میں غیر قانونی کیسے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے مقدمے کی سماعت کی
دوران سماعت سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے بانی پی ٹی آئی کی آن لائن ملاقات کرانے سے انکار کر دیا۔
اپنے جواب میں سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ جیل رولز میں آن لائن ملاقات کی اجازت نہیں ہے
چنانچہ ان سے ملاقات نہیں کروا سکتے ہیں۔
اس پر عدالت نے دریافت کیا کہ میڈیا میں تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کوٹ لکھپت جیل میں
آن لائن ملاقاتوں کا اعلان کیا ہے، وزیر اعلیٰ نے تو فخریہ کہا کہ پورے ایشیا کی پہلی جیل ہے جہاں یہ سہولت دے رہے ہیں، اگر جیل رولز میں اجازت نہیں تو کوٹ لکھپت جیل میں غیر قانونی کام کیسے شروع ہو گیا؟
اس پر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے کہا کہ جیل رولز میں ترمیم کرنی پڑے گی اور اُس کے لیے
پنجاب حکومت کو لکھ دیا ہے۔
اس پر جسٹس سردار اعجاز اسحق نے دریافت کیا کہ جیل اتھارٹیز اپنے جواب میں یہ کہہ رہی ہیں
کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا اقدام غیرقانونی ہے؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا جا سکتا، ترمیم کی ضرورت ہے۔
بعد ازاں سرکاری وکیل نے استدعا کی ہمیں مزید ہدایات لینے کے لیے کچھ وقت دے دیں۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہدایات لینے کی کوئی ضرورت نہیں، سپرنٹنڈنٹ جیل کہہ رہے ہیں
کہ رولز اجازت نہیں دیتے، ایک ہی حکومت نے ایک جیل میں ترمیم کے بغیر آن لائن میٹنگ سے
منع کیا جبکہ دوسری میں خود فخریہ وہی کیا۔
عدالتی معاون زینب جنجوعہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کا مؤقف پنجاب
حکومت کے مؤقف سے متضاد نہیں ہونا چاہیے، وہ ان کے ماتحت افسر ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل شیرت افضل مروت نے کہا کہ کوٹ لکھپت میں فخریہ اعلان کیا گیا
لیکن یہاں عدالت سے چھپن چھپائی کھیل رہے ہیں۔
جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے کہا کہ ہم نے اس نکتے کو جلد ہی طے کرنا ہے زیادہ وقت نہیں ہے
سوال اب یہ ہے کہ جیل ملاقات میں سیاسی گفتگو ہو سکتی ہے یا نہیں، اگر ہم نتیجے پر پہنچتے ہیں
کہ سیاسی گفتگو ہو سکتی ہے تو پھر ترمیم کرنی ہو گی، یہ معاملہ حل ہونے دیں، آن لائن میٹنگ کو اب روکا نہیں جا سکتا ہے، اگر یہ کہیں گے کہ آن لائن نہیں کروا سکتے تو پوری دنیا میں مذاق اڑے گا۔
اس موقع پر شیر افضل مروت نے بتایا کہ ہمیں اڈیالہ جیل سے ڈیڑھ کلو میٹر پہلے روک کر پیدل بھیجا جاتا ہے
جسٹس سردار اعجاز اسحق نے ریمارکس دیے کہ ہم لوگ بھی یہاں بیٹھ کر ڈرامہ ہی کر رہے ہیں،
سب کو پتا ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، جہاں سے جیل حکام کو آرڈرز آ رہے ہیں وہاں سے آنا رک جائیں گے
تو یہ سب ختم ہو جائے گا، ملک میں 200 سینئر سول افسر غیرقانونی حکم ماننے سے انکار کر دیں
تو نظام ٹھیک ہو جائے گا، 200 افسر ایک ساتھ یہ کر لیں تو یہ سلسلہ رک جائے گا۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ عدالت اگر 200 سول سرونٹس کو جیل بھیج دے تو بھی بہتری ہو سکتی ہے
اس پر جسٹس سردار اعجاز اسحق کا کہنا تھا کہ ایک جگہ لکھا ہوا کاغذ ہے اور
دوسری جگہ اس کے سر پر بندوق ہے، دوسری طرف اس کے گھر والوں اور اس کے کیرئیر کو خطرہ ہے
جب تک 2، 3 سو ایک نظریے کے لیے قربانی نہیں دیں گے یہ ایسے ہی رہے گا
ہم کیوں یہاں بیٹھ کر دکھاوا کر رہے ہیں؟
وکیل شیرافضل مروت نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ جو طاقت قلم میں ہے
وہ بندوق میں بھی نہیں ہے، اس پر جسٹس اعجاز اسحق خان نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا اچھا؟
شیرافضل مروت کا کہنا تھا کہ ایک آرڈر سے دیکھیں ڈی سی اسلام آباد کا کیا حال ہوا ہے۔
بعد ازاں جسٹس سردار اعجاز اسحق نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل آئندہ سماعت
پر اپنی واضح پوزیشن لیں۔
اس موقع پر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے بتایا کہ تھریٹ الرٹس کی وجہ سے 12 مارچ سے ملاقاتیں
نہیں کرائی جا رہیں، اڈیالہ کے علاوہ تین دیگر جیلوں میں بھی ملاقاتوں پر پابندی لگائی گئی ہے۔
عدالت نے دریافت کیا کہ آپ کو جیل میں زیادہ خطرہ ہے؟ کل پڑسوں اتنا بڑا مارچ ہونے جا رہا ہے
اس کو تھریٹ نہیں ہے؟ کل ہزاروں لوگ سڑکوں پر ہوں گے، جہاز اڑیں گے ان کو تھریٹ نہیں ہے؟
اس بات میں مجھے نیک نیتی نظر نہیں آئی کہ وہاں تھریٹ ہے اور یہاں نہیں ہو گا۔
اس پر اسٹیٹ کونسل عبدالرحمن نے کہا کوٹ لکھپت کی پیشرفت کے بعد اب ہم نئی ہدایات لیں گے۔
’وزیر اعلیٰ پنجاب کا اعلان غیر قانونی تھا یا جیل اتھارٹیز کا خط؟‘
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ سمجھ سے قاصر ہیں کہ آن لائن ملاقاتیں ایک جیل میں
قانونی اور دوسری میں غیرقانونی کیسے ہیں؟ وزیر اعلیٰ پنجاب کا اعلان غیرقانونی تھا
یا جیل اتھارٹیز کا خط، آئندہ سماعت پر جواب دیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 29 مارچ تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر بانی پی ٹی آئی کی وکلا سے طے شدہ ملاقات نہیں کروانے
پر عدالت نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے جواب طلب کرلیا تھا۔
پس منظر
فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان
کو اپنے وکلا سے تنہائی میں ملاقات کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
بعد ازاں 4 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان سے وکلا کی ملاقات نہ کرانے پر جیل انتظامیہ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر فریقین سے ایک ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔
12 مارچ کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کو دہشتگردوں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے خدشے پر بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان سمیت تمام قیدیوں سے ملاقاتوں پر 2 ہفتے کے لیے پابندی عائد کردی گئی ۔
یاد رہے کہ 13 مارچ کو مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان سے عدالتی احکامات کے باوجود ملاقات نہیں کروانے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کردی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جسٹس سمن رفعت امتیاز نے درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو 15 مارچ کے لیے نوٹس بھی جاری کردیا تھا۔
اس موقع پر درخواست گزار علامہ ناصر عباس کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 8 مارچ 2024 کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرانے کے احکامات جاری کیے تھے مگر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے جان بوجھ کر حکم عدولی کرتے ہوئے ملاقات نہیں کروائی لہذا سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
22 مارچ کو عدالتی احکامات کے باوجود بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان سے ملاقات نہ کرانے پر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔