دنیا میں میرا وجود بلاسبب تو نازل نہیں ہوا میں خود اپنی تلاش میں نکلا ہوں تو میرے اندر نئے سے نئے جہان در جہان کھلتے چلے جارہے ہیں
کیفیت ہر وقت طاری رہتی ہے۔اگرچہ بلھے شاہ رحمتہ اللہ سمیت کئی برگزیدہ ہستیوں نے بھی خود کو تلاش کرنے کا سفر جاری رکھا اور پھر منزل پالی مگر میرے سامنے حالات یکسرمختلف ہیں ،ذات کے اظہار کی جرات کرنے لگا تو کئی بار سوچا ،تاہم اپنے کچھ تجربات اور احساسات کو قارئین کے ساتھ شیئر کرنے کی ہمت کرڈالی ۔اب یہ کیفیت میری اپنی کھوج کے دوران طاری رہی جس پر اکثردوستوں کی جانب سے مجھے تنہا رہنے کی شکایت ملتی رہی تاہم ان دوستوں کے لئے عرض کرتا چلوں کہ میرے افکار ہی میری انجمن آرائی تھے ،اس لئے آپ نے مجھے تنہا سمجھنے کی غلطی کردی بلکہ میرا اپنا ہی شعر ہے کہ
اکیلے پن کا میں اپنے علاج رکھتا ہوں
میں اپنی ذات کے اندر سماج رکھتا ہوں
تاہم سماج ملنے کے باوجود وہ نہیں مل سکا جو بلھے شاہ جیسی ہستیوں کو نصیب ہوا ۔اسی لئے تو تلاش کے اس سفر میں کہیں کوئی ٹھہراؤ نہیں آتا ،کوئی بات بھی نئی نہیں ہوتی گزشتہ سے پیوستہ کالموں میں لاہور سے کراچی کے براستہ سیہون سفر کی روداد کئی قسط وار لکھی ،درحیقت یہ سفر حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر کے مزار سے سندھ میں قدم رکھنے والے پہلے سید زادے عبداللہ شاہ غازی (گیلانی)کے آستانے پر حاضری پر محیط رہا۔یہاں پہنچ کر مجھے مزید سفر کی ترغیب ملی ،در سفر رخت سفر باندھ رہا ہوں ،کربلا تک رسائی کی خواہش بھی ہے مدینہ جاکر تو اب مجھے شرمندگی کا سامنا ہوگا ،امام (ع)کی آواز پر لبیک نہ کہنے کا قلق رہتا ہے ۔تاہم میرے اندر سے دل کی طرف سے یہ ضرور ہدایت ملی ہے کہ پہلے کربلا والوں کو پرسا دینا پھر انکے اجداد کے مزارات کی زیارات کے قابل ہوسکوں گا ۔اپنے چیف ایڈیٹر محترم صفدر علی خاں کو اس حوالے سے وسیلہ بنا چکا ہوں بلکہ ان سے اب رحم کی اپیل بھی ہے ۔اندر کی دنیائوں کے کچھ قائدے اور ضابطے ہوتے ہیں ،جو پہلی بار نیک کام کسی کے سپرد کردیا جائے تو پھر اس کی استطاعت ہونے تک کا انتظار بھی واجب ہے ۔بہرحال کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو ارادے باندھنے کے بغیر ہی سرزد ہو جایا کرتے ہیں جبکہ کئی کام کرنے کی مسلسل شوق لگن اور محنت کے باوجود نہیں ہوپاتے یہی وہ مقام ہے جہاں مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ “میں نے اپنے ارادوں کی ٹوٹ پھوٹ سے اپنے رب کو پہچانا “۔انسان کی تیزرفتار ترقی پر نظر دوڑائیں تو اس نے وہ کامیابیاں سمیٹ لی ہیں جن کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا بلکہ گزشتہ دنوں ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے ایک ایسے ہی افسانے کو پڑھ کر میں زیرلب مسکراتا رہا جس میں منٹو نے اپنے عہد سے اگلی صدی میں ہونے والی ترقی کو مفروضوں میں بیان کیا لیکن وہ ہوتے تو ششدر رہ جاتے کہ انہوں نے چاند کے سفر کی جو کہانی جس پیرائے میں لکھی آج انسان اس سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ دور میں داخل ہوچکا ہے مثال کے طور پر وٹس ایپ کی دنیا بھر میں ویڈیو۔ کال کا منٹو نے تصور ہی نہیں کیا اور انکے افسانے میں آنے والی صدی میں بے شمارتصوراتی ایجادات میں اس طرح کی ایجاد کا کوئی تصور ہی نہیں تھا ۔ سفر کے حوالے سے میرا ابھی تک ایمان یہی ہے کہ جس وقت بلاوا ہوگا ہم وہاں پہنچ جائیں گے ۔میرےاندر کا انسان آج بھی مجھے ایہی سمجھانے کی کوشش کررہا ہے کہ موت کی طرح سفر کے معاملات بھی طے شدہ ہوتے ہیں ،ارادے باندھ لینے سے نہ موت ٹل سکتی ہے اور نہ ہی سفر رک سکتا ہے ،وقت کی طرح سوچ کا سفر بھی جاری رہتا ہے ۔ آنے والے وقت میں کیا ہونے والا ہے اس کے بارے میں انسان کھوج لگا رہا ہے ،تیز رفتار ترقی کے عہد میں کئی طرح کے عقدے کھل رہے ہیں ،انسان کی دسترس میں ہر شے آرہی ہے ،اسی طرح روحانی کیفیات کا سلسلہ بھی رکنے والا نہیں ،روح کے جسم سے تعلق کو تلاشنے کی جستجو بھی تو ہزاروں برس سے جاری ہے ،یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ آج تک سائنس کی تمام تر ترقی کے باوجود روح کو کسی بھی سائنسی ذریعے سے دیکھا نہیں جاسکا۔سائنسدانوں کا بھی روح کی حقیقت کے حوالے سے اختلاف ہے۔کچھ سائنسدان اسے مادہ سمجھتے ہیں جو جسم کیساتھ خاک میں مل کر ختم ہو جائیگی جبکہ کچھ سائنسدانوں کے خیال میں روح ہمیشہ زندہ رہے گی ۔دونوں طرح کے نظریات سے ہٹ کر دنیا میں انسان کا سفر جاری ہے ۔ترقی کے نئے باب کھل رہے ہیں ،جان بچانے والی ادویات کی ایجادات سے لیکر انسان کی تباہی کے لئے مہلک ترین ہتھیاروں کی تیاری تک سب کچھ ہورہا ہے ۔مگر انسان اپنے اندر کی حقیقت کو شعور کے حوالے سے پرکھنے کی کوشش نہیں کررہا ۔روح یا شعور کی تحقیق نہیں ہورہی۔ انسان خود اپنی تلاش کیوں نہیں کررہا ،اسی سوال کے ساتھ خود کی تلاش کے سفر کو جاری رکھنے کا عزم باندھے سوچتا رہتا ہوں اپنی ذات کے حصار سے باہر کیسے نکلوں گا ؟.
کنکریاں ۔۔۔۔۔۔۔زاہد عباس سید
21/03/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-scaled.webp