رمضان المبار ک کی آمد آمد ہے اور پاکستان کی غریب ترین بیس فیصد اور ساٹھ فیصد سفید پوش آبادی کمرتوڑ مہنگائی کا سامنا کرنے جارہی ہے
ناجانے کیوں ہمارے ملک میں جب بھی رمضان المبارک یا کوئی تہوار آتا ہے تو اچانک ہر چیز خصوصا” اشیاء خوردونوش کے دام کیوں بڑھا دیے جاتے ہیں
کوئی یقین کرے نہ کرے یا مانے نہ مانے ہمارے معاشرے میں مہنگائی کی ایک ایسی قیامت برپا ہے جہاں غریب کے ساتھ ساتھ سفید پوش بھی اس قدر پریشان ہےکہ اپنے حواس کھو بیٹھا ہے
ایک جانب بجلی اور گیس کے ناقابل برداشت بل اور ایل پی جی اور پیٹرول کی ہر روز بڑھتی ہوئی قیمتیں انسانی زندگی کو مشکل ترین بناتی جارہی ہیں تو دوسری جانب اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کسی قیامت سے کم تو نہیں ہے ۔
اس پر ستم یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ناجائزمنافع خوروں اور ذخیرہ اندوزں کے سامنے بےبس نظر آتے ہیں ۔ریٹ لسٹیں اور نرخ نامے آویزاں ہیں اور غریب کا منہ چڑا رہے ہیں
عملدرآمد کی کوئی صورتحال بظاہر نظر نہیں آتی ۔سیاسی عمل مکمل ہوا صدر ،وزیراعظم ،وزیراعلیٰ بن چکے وزرا ء کی ایک فوج ظفر موج نئی ذمہداریاں سنبھالنے کو تیار ہے لیکن غریب اور سفید پوش کی بات کوئی نہیں کرتا
گو نئی حکومت سے امید تھی کہ ان کی جانب سےاپنے منشور اور وعدوں کے مطابق غریب اورسفید پوش کو مہنگائی میں فوری ریلیف ملے گا اور تین سو یونٹ فری بجلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو پائے گا
لیکن اب تو اس میں مزید اضافے کی نوید سنائی جارہی ہے کہتے ہیں کہ اقتدار کا دوسرا نام عوام کی خدمت ہوتا ہے
دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت کیسے عوام کو ریلیف دےکر اپنا نام تاریخ میں سنہرے لفظوں میں لکھواتی ہے ؟ ابھی کل ہی ایل پی جی کی فی کلو قیمت میں تیس روپے کا اضافہ کرکے رمضان المبارک کا تحفہ دیا گیا ہے ۔
عام آدمی کے لیے حالات سخت تر ہوتے جارہےہیں آج انسان کی جان سستی اور اشیاء خوردونوش مہنگی ہوتی چلی جارہی ہیں
جس کی واحد وجہ بجلی گیس کے وہ بڑی بڑی رقم کے بل ہیں جو ایک عام آدمی کا بجٹ تباہ کر ہے ہیں اور اس کی آمدنی اور خرچ کا توازن بگڑ رہا ہے ۔
مجھے کل ہی بیگم کے ہمراہ یوٹیلٹی اسٹور اور مقامی سبزی منڈی جانا پڑا تاکہ رمضان شریف سے قبل ہی ضرویات زندگی کی خریداری کر لی جائے
میں بڑے عرصے بعد خریداری کے لیے گیا تھا اکثر یہ کام بیگم خود ہی کرلیتی ہے جیل روڈ پر واقع یوٹیلٹی سٹور کی عمارت ایک پلازے کے گروانڈ فلور پر بنائی گئی ہے جو میرے گھر سے نزدیک ہے
اس لیے میری بیگم تمام خریداری یہیں سے کرتی ہے جس کے لیے تقریبا” پندرہ بیس سڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں جو ہم بوڑھے لوگ بمشکل چڑھ پاتے ہیں پھولے سانسوں کے ساتھ اوپر پہنچے تو ایک عورتوں اور بزگوں کا جمع غفیر موجود پایا جو صرف رعایتی قیمت والی چینی خریدنا چاہتا تھا اور ایک لائن لگا کر اپنے اپنے شناختی کارڈ ہاتھوں میں پکڑے کھڑا تھا
ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جارہا تھا جیسے وہ خیرات یامفت خریداری کر رہے ہوں ۔چند چیزوں کے علاوہ سب اشیاء بازار کے ریٹ سے بھی زیادہ محسوس ہو رہی تھیں
مجھے سب سے عجیب یہ لگا کہ ایک تو بنیادی ضروریات کی چیزیں موجود ہی نہ تھیں یہاں تک کہ وہاں ماچس تک ختم ہو چکے تھے اور اگر کچھ اشیاء موجود بھی تھیں تو ان کی کوالٹی نہایت ناقص تھی
کھانے پینے کی کوئی چیز میعاری نہ تھی خاص طور پر دالیں ،بیسن اور چاولوں تو دیکھنے میں ہی عجیب لگتے ہیں لوگوں کی توجہ کا مرکز چینی کا دو کلو کا پیکٹ یا سستا اور غیر معیاری گھی کا پیکٹ تھا
پوچھنے پر پتہ چلاکہ آٹے کے تھیلے رمضان شریف میں ملیں گے یہ چینی لینے کےلیے بھی انہیں کہا جارہا تھا کہ صرف خالی چینی نہیں ملے گی کچھ اشیاء کی خریداری بھی ساتھ میں کریں
اس لیے وہ مجبورا” ایک آدھ صابن ،سرف یا ٹوتھ پیسٹ یا جام شریں بھی لینے پر مجبور تھے بعض لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں کئی کئی شناختی کارڈ پکڑے ہوے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ چینی خرید سکیں
کیونکہ چینی بازار سے تقریبا” چالیس روپے سستی بتائی جارہی تھی پورے ہال میں تین کیرج ٹرالیاں تھیں باقی لوگ اپنا سامان ہاتھوں میں اٹھاے پھر رہے تھے ۔بل بنانے والا کمپیوٹر خراب تھا
جو باربار لائٹ جانے سے بند ہوجاتا تھا اور پرنٹر کی لکھائی تو پڑھی ہی نہیں جاتی تھی گویا بل کی جگہ کورا کاغذ ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے ۔بل سے قبل آپ سے شناختی کارڈ طلب کیا جاتا ہے وگرنہ آپ خریداری کے اہل نہیں ہیں ۔
بل کے ساتھ کھلے پیسوں کی واپسی کی بجاے چند نہایت ہی گھٹیا ٹافیاں پکڑا دی جاتی ہیں جو نہ تو کھائی ہی جاسکتی ہیں اور نہ پھینکی جاسکتی ہیں پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ابھی رمضان پیکج کا سامان پورا نہیں آیا
ورنہ تو خریداروں کی لمبی لائن دور تک لگ جاتی ہے اور لوگوں کو اس چند روپے سستی خیرات کے لیے دھوپ اور گرمی بھی برداشت کرنی پڑتی ہے ۔
ہم میاں بیوی جیسے تیسے سامان خرید کر اور بھاری شاپروں کا یہ وزن اٹھا کر پھربمشکل سیڑھیاں اترے اور دور اپنی گاڑی تک پہنچے تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ سامان خریدنے اور تھوڑے پیسے کی بچت کے لیے لوگ کتنی ذلت کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں
یہ سب چیزیں سب کو بغیر شناختی کارڈ دکھانے ہر مارکیٹ سے کیوں دستیاب کیوں نہیں ہو پاتیں ؟ مٹن تو پہلے ہی عام آدمی کی پہنچ سے باہر تھا لیکن اب مرغی اور بیف کے ریٹ بھی ناقابل برداشت ہو چکے ہیں
پہلے کہتے تھے کہ دال ہی کھا کر گزارہ کرلیں گے لیکن اب تو دال بھی گوشت سے مہنگی پڑتی ہے
مہنگائی کا یہ طوفان بڑھتا ہی چلا جارہا ہے جبکہ آمدنی کے ذرائع اور بھی محدود ہوتے جارہے ہیں ۔ریلیف پیلج اور سپورٹ پروگرام کے نام پر خدارا لوگوں کو خیرات نہ دیں ان کے اخراجات کے بوجھ میں کمی لانے کی کوشش کریں۔
یہاں سے نکل کر مرکزی سبزی منڈی پہنچے تاکہ رمضان شریف کی اہتمام کے لیے کچھ آلو پیاز اور سبزی فروٹ بھی خرید لیے جائیں سب بڑی حیرت ٹماٹر کی قیمت سن کر ہوئی جو ایک دن قبل
عام بازار می ایک سو روپے کلو خریدا تھا
آج ایک ہی دن بعد وہ دوسو روپے ہوچکا تھا پیاز تین سو سے ساڑھے تین سو اور آلو ستر روپے کلو پوچھا کہ یہ ریٹ کیوں بڑھ گئے ہیں تو کہنے لگا بھائی صاحب ابھی تو رمضان شریف نہیں آیا
جلدی خرید لیں ان کے ریٹ تو ڈبل ہو جائیں گے ۔ہر شخص ریٹ بڑھنے کے خوف سے زیادہ سے زیادہ ایسی سبزی خرید رہا تھا جو کچھ عرصہ رکھنے سے خراب نہ ہوں ۔
فروٹ کی قیمتیں الگ آسمان سے باتیں کر ہی ہیں میرے جیسا عام آدمی پانچ سورپے سیب ،دوسو روپے خربوزہ ،دو سورپے درجن کیلا ،ڈیرھ سو روپے کلو کینو ،چار سو روپے کلو سٹرابری
اور دوسورپے کلو امرود کیسے خرید سکتا ہے ؟میں نے مذاقا” اپنی بیگم سے کہا آج فروٹ کو دور سے دیکھ لیتے ہیں رمضان شریف کے بعد خرید لیں گے ۔میری اپنے مسلمان بھائیوں سے بھی اپیل ہے کہ
کچھ دن فروٹ ،چکن اور بیف کا بائیکاٹ کرکے دیکھیں اور سادگی سے روزہ افطارکریں
مہنگائی کے خوف سے بڑی مقدار میں اشیاء خورد ونوش ذخیرہ نہ کریں ۔
اس سے طلب اوررسد کا توازن نہیں رہتا اور چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں
غریب اور سفید پوش کے پاس کبھی کبھی الفاظ نہیں ہوتے اپنی کیفیت کو بیان کرنے کے بس اس کا دل کرتا ہے کہ کوئی ان کہے ہی ہمارے دل کی بات سن لے اور ہماری تکالیف کا مداوا کردے
کاش اس مقدس ماہ میں ذخیرہ اندوزں اور منافع خوروں کو ہی ہم پر رحم آجاے یا پھر حکومتی ادارے ہی ان کا کوئی سدباب کریں ہمیں سوچنا ہے کہ کون ہے جو ان قیمتوں میں اچانک اضافہ کردیتا ہے ؟
کون ہے جو پچاس کی چیز کو ایک دن میں دوسو روپے میں بیچتا ہے ؟کون ہے جو ہماری مجبوری کا فائدہ اٹھا رہا ہے ؟ہمیں رمضان المبارک کے آتے ہی مصنوعی مہنگائی کرنے والے ذمہداروں کو تللاش کرنا ہوگا
رمضان پیکج اس ہوش ربا مہنگائی کا حل نہیں ہے بلکہ اصل مجرموں کا کڑا احتساب ہی اس کا حل ہوسکتا ہے
جو حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہے لیکن یہ سب صرف حکومت نے ہی نہیں کرنا
یہ لوگ ہمارے ہی درمیان موجود ہیں بس ذرا توجہ درکار ہے ۔
ہمیں چکن ،فروٹ اور سبزیوں کا بائیکاٹ کرکے ان زیادہ منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزں کے خلاف جہاد کرنا ہوگا
یقین کریں فروٹ اور سبزیاں گوداموں میں سڑنا شروع ہوجائیں گیں تو یہ ان کو ان کی اصل قیمت سے بھی سستا فروخت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔
احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
12/03/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-8-1-scaled.jpg