ماں جب بھی اپنے بیٹے بیٹی کو جنم دے کر خوشی کا اظہار کرتی ہے تو نومولود پہلی دفعہ ماں بولی سے متعارف ہوتا ہے
اس کے بعد اس کے سیکھنے کا باقاعدہ عمل شروع ہوجاتا ہے۔ وہ اماں ابا، بہن بھائی، چاچا ماما اور ماسی پھوپھی کہنا شروع کردیتا ہے
جواب میں اس کو محبت اور اخلاص کے پھول ملتے ہیں اور اس کے بعد وہ بھی محبت کے اظہار کے لئے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لفظ لاتا ہے پھر تو آپ سے تم اور تم سے تو ہو جاتا ہے۔
الف انار بے بکری سے شروع کرکے جب یے تک پہنچتا ہے تو سن بلوغت کو پہنچ جاتا ہے پھر میں میں تو تو ہونے کے مراحل سے بھی اس کو گزرنا پڑتا ہے۔
یوں بولتے بولتے جب تھک جاتا ہے تو دنیا کے شور شرابے میں چپ کا روزہ رکھ لیتا ہے اور پھر اپنی دھرتی کے اندر جا کر لمبی تان کے سوجاتا ہے۔
اس سارے سفر میں اس کا سب سے زیادہ ساتھ ماں بولی دیتی ہے۔ ساتھ نبھانے والوں کو بھول کر ہمدم دیرینہ اپنے آپ کو مشکوک بناتے ہیں جبکہ جن سے ٹوٹ کر محبت کی جاتی ہے وہ معشوق اور مطلوب کہلاتے ہیں۔
حق بات کہنے والے مصلوب ہونے سے بھی نہیں کتراتے اور مصلوب ہو کر ہی انسان امر ہو جاتا ہے۔
یقییناً پنجاب پنجابی اور ماں بولی امر ہو گئے ہیں۔ اس کی عملی شکل 21 فروری کو پنجاب کی دھرتی پر جا بجا دیکھی جا سکتی تھی۔
پنجاب کی زمین انتہائی زرخیز ہے۔ ون پونی فصلیں، لہلہاتے کھیت اور سونا اگلتی دھرتی۔
ماشاءاللہ۔ ایک نہیں پانچ بہتے دریا اور میخوں سے گاڑھے ہوئے فلک بوس پہاڑ اور پہاڑ کے سے حوصلے والے شینہہ جوان اور مٹک مٹک کے چلنے والی اور خوبرو نازک اندام۔
اوپر سے کانوں میں رس گھولنے والے لوک گیت۔ ایک دوسرے سے بات کرکے موہ لینے والا انداز گفتگو۔ یہ سب منفرد اور یکتا چیزیں جب آپ کو نظر آئیں گی
تو پھر آپ اپنی ثقافت، کلچر اور زبان پر فخر تو کریں گے اور بین الاقوامی ماں بولی ڈے منائے جائیں گے اور پنجابی سر اونچا کر کے اپنی ماں بولی میں بات کرے گا اور ویریوں کے چھکے چھڑا دے گا۔
اس دھرتی نے جگا پیدا کیا۔ احمد خان شہید پیدا کیا۔ دلا بھٹی پیدا کیا، مراد فتیانہ پیدا کیا اور بھگت سنگھ بھی پیدا کیا۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کیا کیا نہ پیدا کیا۔
بلھے شاہ کی وجودی شاعری، سلطان باہو کا ہو کا واجہ، وارث شاہ کی شاعری کا خالص پنجابی رنگ اور وہ بھی باقی سب زبانوں سے وکھرا اور
نویکلا رنگ اور پھر اوپر سے عشق و محبت کی بانسری کا مست بلکہ الست کر دینے والا آہنگ، میاں محمد بخش کی شاعری میں
ہجروفراق اور پردرد اور پر کیف لہجہ، علی حیدر ملتانی کا اپنے آپ کو ڈھور ڈنگر قرار دے کر اپنے مالک کے حضور عاجزی و درماندگی کا خوبصورت اظہار،
خواجہ غلام فرید کا درداں دی ماری جندڑی کی نوحہ خوانی اور پیر مہر علیشاہ کا
اپنے آقا و مولی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اپنی نسبت کا اظہار
اور ” ورلیاں موتی لے تریاں” یہ سب ماں بولی کے طفیل تخلیق ہوتا ہے
تو آج کا پنجابی اپنی میٹھی اور رسیلی زبان پر فخر کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے
تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر کی جانے والی بات کو سند یقین حاصل ہوتی ہے۔ بلاشبہ مجھ جیسے سارے پنجابی ان تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل ہیں جہاں اردو اور انگریزی میں نصاب ہوتا ہے۔
لیکن سچی بات تو یہ ہے مذکورہ نظام میں رہ کر بھی ہماری پنجابی زبان سے وابستگی ختم نہیں ہو سکی ہے۔
جب یار بیلی ملتے ہیں تو ان کو ماں بولی میں کھل کھلا کر بات کرنے میں ہی مزہ آتا ہے۔
میں نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ اگر بہت مختصر وقت میں کسی کے قریب آنا ہو تو سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس شخص سے اس کی ماں بولی میں بات کی جائے۔
بلاجھجھک بات بھی اپنی مادری زبان میں ہی کی جا سکتی ہے اور اپنا مافی الضمیر بھی پورے زور شور سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں علم کے حصول میں بظاہر سب سے بڑی رکاوٹ انگریزی اور دیگر زبانیں ہیں۔
زبان کا بھی ایک اپنا علم ہے اور اس کو سیکھنے پر آدھی عمر لگ جاتی ہے
اور یوں اتنے عرصے بعد آپ صرف ایک زبان سیکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں حالانکہ اتنے عرصے میں اپنی ماں بولی میں کتنے ہی علوم سیکھ لیتے ہیں۔
شاید ہمیں اپنی زبان کی فصاحت و بلاغت اور ضخامت کے بارے میں آگاہ ہی نہیں ہونے دیا گیا ہے
اور ہم اپنے غیروں کی زبانوں کے چکر میں سالہا سال سے پڑے ہوئے ہیں اور
وہ ہماری زبان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
ہمارا بھی نام نہاد پڑھا لکھا طبقہ انگریزی کی ڈھولکی بجانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔
اپنا آپ بھول کر غیر کا مقلد و متبع بننے کا شوقین ہے اور
اپنے بچوں کو ماں بولی سے دور رکھ کے اپنے اور اپنے ہی بچوں کے درمیان دوریاں پیدا کرلیتا ہے
اور پھر گلہ ” آج کے بچے والدین کے سامنے بات کرتے ہیں” غیروں کا رہن سہن،
غیروں کا لباس، غیروں کی رہتل بہتل اور غیروں کی زبان۔ بچوں کا زبان دراز ہونا فطری بات ہے۔
سامراجی ہڑ آیا اور ہمارا سارا کچھ بہا کے لے گیا اور ہم خموش تماشائی بنے رہے۔
سدا ایک سا سماں اور ماحول نہیں رہتا ہے۔
ایک نہ ایک دن حق سچ سر اٹھاتا ہے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتا ہے۔
آج بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ پنجابی جاگ گیا ہے۔
اپنی ماں بولی کی اہمیت و افادیت سے شعوری طور پر آگاہ ہو گیا ہے۔
اس زبان میں ادب کی تخلیق نے بھی انگڑائی لی ہے اور اٹھ شاہ حسینا ویکھ
اور اردو بولن والی کڑیئے جیسے گیت ہر محفل میں گائے جارہے ہیں اور ہر دل ودماغ میں گنگنائے جارہے ہیں۔
روز بروز پنجابی کو نصاب کا حصہ بنانے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
مشاعروں میں پنجابی زبان کے شاعروں نے مکمل طور پر میدان مار لیا ہے۔
اس دھرتی کے کچھ وسنیکوں نے تو اپنے آپ کو پنجابی زبان کی ترویج و ترقی کے لئے وقف کردیا ہے
اور ہر پلیٹ فارم پر شدومد سے اپنی ماں بولی کے حق میں پرزور آواز اٹھا کر
اپنے ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہوتے ہیں۔
اب ملک کی عدالت میں ہم نے اپنی بولی کا مقدمہ لڑ کر اس کو نصاب میں شامل کروانا ہے۔
عزائم جن کے پختہ ہوں ان کے سامنے ہر قسم کی دیواریں نقش بر آب ہوجاتی ہیں
اپنی ماں بولی سے وفاشعاری اور وفاداری کاتقاضا ہے کہ انفرادی طور پر
ہر شخص عہد کرے کہ وہ آئندہ ہمیشہ پنجابی میں بات کرے گا اور اپنے بچوں کو بھی ایسا کرنے پر آمادہ کرے گا۔
پنجابی شاعری کانوں میں رس گھولتی ہے اور محبت اور پیار سے لوکائی کو مانوس کرتی ہے۔
ہم سب کو صوفی شاعروں کا کلام زبانی یاد کرنا چاہیئے اور حسب ضرورت
اپنی گفتگو کو خوبصورت بنانے کے لئے ان شعروں کا سہارا لینا چاہیئے۔
ارباب اقتدار کو اس بات پر بھی ہم نے ہی قائل کرنا ہے کہ سرکاری طور پر
اس ماں بولی کی سرپرستی کی جائے۔ پنجاب لینگویج اینڈ کلچر جیسے اداروں کی تنظیم نو کی جائے
اور اس طرح کے ادارے ضلع اور ڈویژن کی سطح پر قائم کئے جائیں۔
ہر لائبریری میں پنجابی ادب کی کتابوں کے لئے علیحدہ سیکشن مختص کیا جائے۔
اچھے پنجابی شعرا کی کتابوں کی اشاعت کا سرکاری طور پر بندوبست کیا جائے۔
ہر ڈویژن میں پنجابی صوفی شعراء کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے باقاعدہ ریسرچ سنٹر قائم کئے جانے چاہیئیں۔
پنجابی زبان کو نصاب کا حصہ بنا دیا جائے۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-21-1-scaled.jpg