مجھے قطعاَ معلوم نہیں کہ کسی نابغۂ روزگار ہستی کا ضمیر کب جاگتا ہے اور کب وہ محوِ استراحت ہوتا ہے۔
یہ کسی کی ملامت کب کرتا ہے اور تحسین کے جذبات کس وقت پیش کرتا ہے۔
ہاں مگر اتنا ضرور معلوم ہے کہ کسی مقروض (چاہے وہ فردِ واحد ہو یا ریاست) کی کبھی عزت نہیں ہوا کرتی۔
اپنے شملے اور طُرّے اور پگڑی کو سربلند رکھنے کے لئے
وہ کاسۂ گدائی ہاتھ میں تھامے یا قوم کے نام پر بھیک مانگے‘ شرفا اور قناعت پسندوں کے نزدیک تو یہ عمل شجرِ ممنوعہ ہی ہوتا ہے۔
قرض کی مے پی جانا کسی دل جلے شاعر کے نزدیک تو درست اور صائب ہو سکتا ہے ،
بقائمی ہوش و حواس لوگ نرم سے نرم لفظوں میں کہا جائے تو بھی اسے تحسین کی نظروں سے نہیں دیکھ سکتے۔
ان دنوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند سابق وزیراعظم عمران خان کے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ
جسے عرفِ عام میں آئی ایم ایف کہا جاتا ہے کہ حضور مجوزہ خط کا تذکرہ زبانِ زدِ عام ہے
جس کا بیانیہ یہ ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت کو
کسی قسم کی امداد (قرضہ) نہ دیا جائے
کیونکہ یہ گویا آزاد، منصفانہ اور شفاف انتخابات کی پاکیزہ کوکھ سے نہیں
بلکہ دھاندلی کے متعفن پیٹ سے برآمد ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ ہمارے یہی وزیراعظم اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد ورلڈ بنک اور
آئی ایم ایف یا کسی دوسرے قرض دینے والے ادارے کی خدمتِ اقدس میں نہ جانے کا عزمِ مصّمم کئے بیٹھے تھے
لیکن پھر قوم سمیت دنیا بھر نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ جناب وزیراعظم
اپنے اس عزم یقین پر قائم نہ رہ سکے اور انہیں مذکورہ اداروں کی خدمت میں حاضر ہونا پڑا۔
اور یہ محض اس لئے ہے کہ شہ خرچیوں اور اسراف و تبذیر کی پڑی ہوئی لت سے چھٹکارا
نہ ہمیں کبھی مطلوب رہا ہے اور نہ ہمارا مقصدِ اولیٰ۔
یہی وجہ ہے کہ کفائت شعاری کے دعویدار وزیراعظم اپنے دفتر سے اپنے گھر
واقع بنی گالہ کا سفر بھی بذریعہ سڑک نہیں بلکہ ہیلی کاپٹر پر کرتے رہے۔
ایسا ہی جداگانہ اور منفرد اندازِ زندگانی خیر سے ہمارے دیگر حکمرانوں کا رہا ہے۔
مہنگی سے مہنگی ترین گاڑیاں، بڑے بڑے قطعات اراضی پر کثیر سرمائے سے بنائے جانے والے گھر
قرضوں کے حصول کے لئے بیرونی ممالک میں جا کر پُرتعیش ہوٹلوں میں قیام ہمیشہ اُن کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔
قرض کی بھیک ہمیشہ قوم کے نام پر مانگی جاتی ہے اور عیش و عشرت اور کیف و نشاط سے بھرپور زندگیاں حکمرانوں کی گزرتی ہیں۔ یہ ملک و قوم کے ساتھ سنگین مذاق اور کھلواڑ نہیں ہے تو اور کیا ہے۔
میں ان سطور میں بارہا عرض کر چکا ہوں
کہ میرا Tilt یا جھکاؤ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی جانب کبھی نہیں رہا۔
میں اگر کبھی کبھار بلاول بھٹو کے حق میں کلمۂ خیر کہتا ہوں تو بھی ایک موہُوم سی امید
اور مقصد پیش نظر ہوتا ہے کہ
شاید یہ توانا خون ہی ہماری امنگوں ، آرزوؤں اور آدرشوں اور امیدوں کے بر آنے میں ممّدو معاون ثابت ہو سکے۔
وگرنہ تو ہم قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک بہت سوں کو آزما چکے ہیں بلکہ بھگت چکے ہیں۔
میں انتہائی دیانتداری کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ
میں نے بیس بائیس سالہ سیاسی ریاضت کے نتیجے میں بننے والے وزیراعظم عمران خان کے حق میں کلمۂ خیر کہا
تو بھی اسی امید کے تحت کہ شاید یہی صاحب ہمارے زخموں پر کچھ نہ کچھ مرہم رکھ سکیں۔
یقین مانیں قارئین! میں نے انتھک، ضدی، اکھڑ اور جدوجہد کے پہاڑ عمران خان کی آنکھوں میں کئی کئی مہینوں کے رتجگوں کی تھکن ڈھونڈنے کی کوشش کی، ناکام رہا
لیکن بہت جلد یہ طلسم و سحر ٹوٹ گیا جب خان بھی آئی ایم ایف جیسی دیوی کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہو گئے
اور آج پھر سن 2024 کے عین آغاز میں عمران خان کے بعد
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے بھی امتحان کا وقت ہے
جس کے ممتحن تک سابق وزیراعظم عمران خان کی اپیل پہنچ چکی ہے کہ
نئی بننے والی حکومت کو امداد یا قرض کی صورت میں کچھ نہ دیا جائے کہ
یہ غیر آزادانہ، غیر منصفانہ اور غیر عادلانہ انتخابات کے نتیجے میں بنی ہے۔
نیز یہ کہ جس کے پیچھے عوام کا اعتماد نہ ہو وہ قرض کی ادائیگی میں ناکام رہے گی۔
اگرچہ آئی ایم ایف اس دہائی پر کان دھرے گا یا نہیں یہ ایک موضوع ہے
کیونکہ اس کا کام ہی ترقی پذیر ممالک کو چند ڈالر دے کر غلام بنا کر رکھنا ہے۔
اس کا اپنا نان و نفقہ اسی قرض کے سود پر چلتا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ
اصل زر سے ہمیشہ پیارا سُود ہوتا ہے لہٰذا وہ اس پر کان نہیں دھرے گا
لیکن عمران خان نے ٹھہرے ہوئے پانی میں ہلکی سی کنکر پھینک کر ارتعاش ضرور پیدا کر دیا ہے۔
قوم اگر یہ سوچتی ہے یا میں اگر کڑھتا ہوں تو کیا غیر حق بجانب ہیں کہ
قیام پاکستان سے لے کر آج تک حاصل کئے جانے والے قرضوں کا محّلِ استعمال کیا رہا۔
کیا ہمارے نام پر لئے قرض ہمارے بھی کسی کام آئے یا محض حکمرانوں کی تجوریاں بھریں۔
ہماری 70 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے جہاں (بعض دیہات میں) آج بھی بجلی کا فقدان ہے۔
قدرتی گیس تو شاید آئیندہ 20/25 برس تک بھی وہاں تک نہ پہنچ سکے۔
وہاں خواتین آج بھی گائے بھینس کے گوبر اور گدھوں اور گھوڑوں کی لید سے بنائے گئے
اوپلوں کی آنچ پر کھانے پکانے اور
انہی اوپلوں پر روٹیاں سینکنے پر مجبور ہیں۔ جہاں نہ تو ٹھیک طریقے سے صحت کی سہولتیں میّسر ہیں
نہ بچوں اور بچیوں کو تعلیم کی بہتر سہولتیں فراہم کی جا سکی ہیں۔
نہ پینے کا صاف پانی دستیاب ہے ،نہ ذرائع آمد و رفت کی فراوانی ہے۔
سندھ ہو یا بلوچستان، سرحد ہو یا پنجاب، یہاں ایسے ایسے مقامات ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں
جہاں کے عوام کے پاؤں میں سپینچ کی بنی ہوئی چپل تک بھی نہیں ہوتی۔
سندھ کی وڈیرا شاہی ،پنجاب کی چوہدراہٹ، سرحد کے خوانین (خان کی جمع)
اور بلوچستان کے سرداروں نے اپنے اردگرد طاقت کے حصار تو قائم کر رکھے ہیں
لیکن زمین پر بسنے والی مخلوق کی حالت حشرات الارض سے بھی کم تر ہو چکی ہے۔
جس کے وو ٹ کی بزور ڈنڈا اور معمولی سی ٹیڑھی آنکھ کر کے اور مونچھوں کو
ہلکا سا تاؤ دے کر حاصل کی گئی طاقت سے یہ ’’خواص‘‘ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں
وہ بے چارے عوام آج بھی زندگی کی اصل رعنائیوں سے محروم ہیں۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج لینڈ مافیا نے غریب عوام سے چھت کا حق چھین لیا ہے
جو کہیں طاقت کے زور پر اور کہیں روپے پیسے کے بل پر سستی زمینیں خریدتے
اور انتہائی مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ اس میں بھی جو جعلسازیاں ہوتی ہیں وہ ڈھکی چھپی نہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ زمین خرید کر سڑکیں بنا کر سکول کالجز قائم کر کے
ہسپتال اور قبرستان کی جگہ چھوڑ کر پلاٹنگ کی جائے
لیکن نہیں جناب! جگہ خرید کر پہلا کام قیمت فی مرلہ نکالنا اور
ڈویلپمنٹ چارجز ڈال کر اگلے تین چار پانچ سالوں کے بعد قبضہ دینا ہوتا ہے۔
لیکن معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ کوئی حکمران کوئی عدالت یا کوئی
ڈویلپمنٹ اتھارٹی لینڈ مافیا سے یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کرتی کہ
ایک ہاتھ دو ایک ہاتھ لو کا اصول یہاں کارفرما کیوں نہیں ہوتا۔
یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ قبرستان، سکول، کالج اور پارکوں کے لیے قطعات کہاں چھوڑے گئے ہیں؟
سستی ترین زمینیں حاصل کر کے مہنگے ترین نرخوں پر بیچنا چہ معنی دارد؟
لیکن جہاں مقتدر قوتیں پہلے اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کر کے اپنے لئے پلاٹ حاصل کر کے
ان کی تعمیر بھی ہاؤسنگ کا لونی بنانے والے مالکان سے ہی کروائیں گے وہاں غریب کی بات کون کرے گا؟
ہمارے ہاں سرکاری تعلیمی ادارے کس قدر ناپید ہیں کانوں کو ہاتھ لگانا پڑتا ہے
لیکن مہنگے ترین تعلیمی ادارے جگہ جگہ دیکھے جا سکتے ہیں
جہاں پر فیسوں کی شرح سن کر ہی انسان دم بخود رہ جاتا ہے۔
غیر سرکاری تعلیمی اداروں کے مالکان لاکھوں لگا کر کروڑوں اور کروڑوں لگا کر اربوں روپے کماتے ہیں
جبکہ غریب کا بچہ وہاں سے گزر تو سکتا ہے اندر جا کر تعلیم حاصل نہیں کر سکتا
یہی کیفیت ہیلتھ سیکٹر کی ہے۔
سرکاری طور پر ہسپتال آبادی کے تناسب سے بہت ہی کم ہیں جبکہ پرائیویٹ اور
نجی ہسپتال کھمبیوں کی طرح گویا اُگے ہوئے ہیں۔ جہاں علاج غریب کی پہنچ میں کبھی رہا ہی نہیں۔
غریبوں کی خدمت کے جو کام سستے نرخوں پر یا مفت حکومت کے کرنے کے ہوتے ہیں
وہ کام نجی شعبہ ہوش اڑا دینے والی قیمتوں کے عوض کرتا ہے
لیکن بیرونی ملکوں سے قرضے یا امداد ملک کے غریب عوام کے نام پر حاصل کی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مجھ سمیت قوم یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جب
ہمارے نام پر حاصل کئے گئے قرضے یا امداد کا عشرِ عشیر بھی ہم پر نہیں لگتا تو یہ ملے بھی کیوں؟
جب عوام سوچتے ہیں کہ حکمرانوں کے گھروں کے چولہے جلتے اور اُن کے بُھجے رہتے ہیں
حکمرانوں کے محلات برقی قمقموں سے روشن اور ان کے گھروں میں تاریکی نے ڈیرے ڈالے رکھنے ہیں۔
جب خواص کے بچوں نے لنکنز ان ، ہارورڈ ، کیمبرج، آکسفورڈ سے فیض حاصل کرنا ہیں
اور عوام کے بچوں کے لئے ٹاٹ سکولوں کا بھی فقدان رہنا ہے
جب حکمرانوں نے چھینک آنے پر بھی امریکہ ، برطانیہ کا رخ کرنا ہے اور
غریبوں کے لئے ہسپتالوں میں ڈسپوزیبل سرنج اور پیناڈول بھی میّسر نہیں
تو یہ حِرماں نصیب ، ناہنجار عوام آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی امداد یا قرضوں پر
تین حرف نہ بھیجیں تو اور کیا کریں؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ غریب عوام نے عمران خان اور بعدازاں میاں محمد شہباز شریف کی حکومت
اور خیر سے الا ماشا اللہ نگرانوں کے دور میں بجلی کے بل اپنی موٹرسائیکلیں تک بیچ کر
اور بہو بیٹیوں کے کانوں کی بالیاں، گلوں سے ہار ، انگلیوں سے انگوٹھیاں اتار کر ادا کئے ہیں۔
خودکشیاں تک کی ہیں، اعضائے رئیسہ تک فروخت کرنے کی کوشش کی ہے۔
لیکن حکمرانوں کی لگژری گاڑیوں میں پٹرول بھی ڈلتا رہا ان کی رہائشوں اور دفتروں کی تزئین و آرائش پر بھی کروڑوں خرچ کئے جاتے رہے۔
بیوروکریسی سے اپنے جائز ناجائز کام نکلوانے کے لئے اور ان کو خوش رکھنے کے لیے
قیمتی ترین گاڑیاں بھی خریدی جاتی رہیں۔
اور دفتروں کی تزئین و آرائش بھی ہوتی رہے تو حکمرانوں کے لئے گئے قرضے قوم کیوں اتارے
ان کی آنے والی نسلیں گلے میں قرض کی لعنت کا طوق پہنے کیوں پیدا ہوں؟
آخر قرض کی مے پر گزارہ کب تک؟ کبھی تو ہم خوددار اور زندہ قوموں کی طرح جینے کا ہُنر سیکھیں؟
غالباَ 2012 میں امریکہ میں سینڈی طوفان آیا تھا جس میں سے ایک محتاط اندازے کے مطابق لگ بھگ 45 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا
لیکن اس کے باوجود اس وقت بھی اور آج بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہے
لیکن ہمارے ہاں کوئی زلزلہ آ جائے یا کوئی امپورٹڈ ناگہانی آفت آجائے تو ہم نہ صرف لاک ڈاؤن لگا دیتے ہیں
بلکہ دنیا بھر میں کشکولِ گدائی لے کر بھیک مانگنے نکل پڑتے ہیں۔
کالم: حرف تمنا
شفقت حسین
27/02/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-20-1-scaled.jpg