انسان کو زندگی اللہ تعالیٰ نے ایک نعمت عطا کی ہے۔ انسان اگر غور و فکر اور تدبر کرے
تو یہ بات ظاہر ہو گی
کہ یہ خود اِس دُنیا میں آیا ہے اور نہ ہی اس دُنیا سے جائے گا۔
زندگی اور موت کی مسافتیں اور فاصلے، روح و جسم کی رفاقت اور مفارقت کے معاملات
اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھے ہیں۔
فرق صرف سوچ و فکر کے زاویوں کا ہے۔ آیا کہ وہ اُن خواہشات، آرزوؤں اور تمناؤں کی تکمیل کے لیے
کوشاں ہیں جو اِس کے ذہن و قلب پر اضطرابی موجوں کی طرح مدوجذر کا روپ دھارتی ہیں۔
اگر انسان اپنی فکری اور خوابی دُنیا کو محض دبا کر حصولِ رزق و معاش کی سعی کرتا چلا جا رہا ہے
تو اِس میں محض انسان کے جذبات اور نا اُمیدی افکار کا رجحان دکھائی دیتا ہے۔
اگر وہ اِس کے لیے سرگرداں رہے اور بے چینی کی کیفیت سے دو چار ہے توہ سمجھ سکتا ہے کہ
میں کن اُمور اور معاملات کو کیسے اور کیوں عبور کر سکتا ہوں۔۔۔۔؟
انسان کی زندگی خواہشات ، ارمانوں اور اُمنگوں کا گہوارہ ہے۔
اگر وہ پایہ تکمیل تک پہنچتی دکھائی نہیں دیتی تو حیوان و انسان کا فرق چند سیکنڈ میں مٹ جاتا ہے۔
حیوان اپنی بقا اور حصول رزق کے لیے انسان سے زیادہ دوڑ دھوپ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
جبکہ انسان کا فرق اُن سے اس دِل میں اُٹھنے والے جذبات و احساسات کی وجہ سے
اُس کو منفرد اور جدا بناتا ہے۔ امریکن تاریخ دان، ناول نگار اور شاعر سینڈ برگ کہتا ہے کہ
اگر انسان خواب نہیں دیکھتا تو اُس وقت کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔
اِس کا فرق واضح ہے کہ جب انسان کے سامنے کوئی مقصد اور منزل کا حصول ہو گا تو
جستجو اُس قدر تیز ہوتی چلی جائے اور اِس کے لیے انسان کی بہتری اور
اِس کی کوشش کاوش کے لیے بے شمار لوگ اپنے نظریات و افکار پیش کرتے ہیں۔
انگریز مصنف ایڈورڈ لکھتا ہے کہ انسان کی زندگی میں اگر سات چیزیں آ جائیں تو
وہ خود کو کامیابی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ اِس میں پہلی بات یہ ہے کہ
انسان اپنی ذات کے ساتھ سمجھوتا کرے
کہ وہ کیا کر سکتا ہے کیونکہ انسان وہ واحد ذات اور یقینی کائنات میں وقوع پزیر ہوئی
جو وہ خیال کرے اس کو عملی جامہ پہنچانے کے لیے سرگرداں ہو سکتا ہے۔
جب تک انسان اپنی ذات کے ساتھ وعدہ نہیں کرتا اس وقت تک وہ کسی بھی شے کے
حصول کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔ دوسری بات انسان کو وسیع خیالات رکھنے چاہئیں،
محدود سوچیں انسان کو کسی بلند مقام پر نہیں پہنچا سکتیں۔
جس قدر انسان خیالات کو وسعت دے اُن کی پیروی کرتا چلا جائے گا،
انسان کو زندگی آرام دہ دکھائی دینا شروع ہو جائے گی۔ ایک انگریز فٹ بالر روڈ ی روٹیگر کو
جب اِس کے دوست نے ایک شرٹ / جیکٹ دی اور اِس پر فٹ بال کلب کا نام لکھا تھا تو
اس نے یہ کہا روڈی تم اِس جیکٹ کو پہننے کے لیے بنے ہو / پیدا ہوئے۔
یہ الفاظ کا سننا تھا کہ روڈی نے اپنی زندگی کی منزل کے حصول کے لیے کوششیں تیز تر کر دیں
اور بالآخر وہ دُنیائے فٹ بال کا بے تاج بادشاہ بن کر اُبھرا اِس لیے وسیع خیالات کامیابی کا بیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔
کامیابی کی تیسری بات استقامت ہے۔
انسان اگر چھوٹی چھوٹی مشکلات کو نظر انداز نہ کرے تو شاید اِسی زندگی میں اِسی کا جینا دو بھر ہو جائے۔
انسان زندگی میں چھوٹی چھوٹی غلطیوں ، کوتاہیوں کو معاف نہ کرے تو
انسانی رشتے مکڑی کے جالے کی مانند بن کر ٹوٹنا شروع ہو جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے زندگی میں ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کا دامن پکڑے رکھا
وہ دُنیا میں روشنی اور درخشندہ ستارہ پر زمین کی بجائے آسمان دنیا پر چمکتے دکھائی دینے لگے۔
انسان کو جلد اور فی الفور نتائج کی خواہش بعض اوقات کامیابی سے کوسوں دور لے جاتی ہے۔
کسی نوجوان نے کسی درویش سے سوال کیا کہ کامیابی کا راستہ کیا ہے؟
بزرگ نے اشارہ کیا اس طرف وہ نوجوان گیا اور اُن راہوں سے تھک ہار کر واپس پلٹا اور
بزرگ سے ناراضی کا اظہار کیا کہ اُس راستے پر کیچڑ اور گردوغبار بہت زیادہ تھی اور
جب میں اس راستے کو اس انداز میں دیکھا تو واپسی کی راہ اختیار کی اور واپس آ گیا
جب بزرگ نے یہ بات سنی تو فرمایا:
اس کیچڑ اور گرد و غبار کو عبور کرنے کے بعد تیری منزل کی شروعات ہیں۔
ہم اپنی زندگی میں استقامت کے اُصول کو سرے سے نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔
زندگی میں مزاحمتیں اور رکاوٹیں عبور کرکے انسان کامیابی کی منزل کو پاتا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:
’’ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘
چوتھی بات نرمی کی ہے کسی بھی چیز میں سختی انسانوں کو منفی نتائج کی طرف دھکیل دیتی ہے۔
یہ ہمیں اپنی سوچوں کی تکمیل کے لیے اپنے اندر نرمی اور تبدیلی کے رویوں کے لیے خود کو تیار رکھنا چاہئے۔
کیونکہ استقامت بھی اس وقت کامیاب ہوتی ہے
جب آپ حالات و واقعات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی ہمت سے واقف ہوتے ہیں۔
انسان اگر کسی بھی قیمت پر مرمٹنے کے لیے تیار نہ ہو تو وہ کامیاب نہیںہو سکتی۔
مظاہر فطرت پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ موسم کا تغیر و تبدیل، رات دن کی تبدیلی
اور انسانوں کے رویوں اور غوروفکر کے انداز ہی اس کائنات کی خوبصورتی اور حسن ہے۔
پانچویں بات یقین اور اعتماد کی ہے۔ انسانوں میں اپنے خوابوں کی تعبیرکا رنگ دینے کے لیے
یہ یقین کی فضا دکھائی نہیں دیتی۔
طالب علموں کو اپنے مستقبل کا اندازہ اور طریقہ ڈگمگاتا دکھائی دیتا ہے۔
اِنسان اس لیے بے یقینی کی فضا میں شب ور وزگزار دیتا ہے۔
اِس لیے کامیابی معدوم ہوتی چلی جاتی ہے۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’ اللہ سے جس یقین سے مانگو گے، اللہ اسی طرح آپ کو نوازے گا۔‘‘
دُنیا میں ہمیشہ وہ لوگ کامیاب ہوئے جنہوں نے یقین کو اوڑھنا بچھونا بنایا۔
چھٹا اصول شکر گزاری کا ہے۔ اگر انسان شکر گزاری کے اُصول پر کاربند ہو جائے تو
وہ زندگی کی رعنائیوں اور دلکشیوں سے مستفید ہو سکتا ہے۔ اے ڈبلیوٹورز کہتا ہے:
’’شگر گزاری کرنے والے دل کبھی اُداس اور تنہا نہیں رہے۔‘‘
اسی وجہ سے اگر آپ کسی بھی ادارے میں کام کر رہے ہیں تو
اِس ادارے کو اپنی بہتری کی طرف ہر گز نہیں لے جا سکتے جب تک باس سے لے کر ورکر تک
شکر گزاری کے عمل سے نہ گزرتا ہو۔
کیونکہ اگر ورکر پریشانی کے عالم میں کام کرتا ہے تو وہ کیا رزلٹ دے سکتا ہے؟
مینیجر کی مینجمنٹ کر سکتا ہے؟ جب تو خود مطمئن نہ ہو
اِس لیے شکر گزاری انسانوں کو آگے بڑنے کے لیے تقویت فراہم کرتی ہے۔
شکر گزاری انسان کو خوش خیال اور روشن خیالی کی طرف لے کر جاتی ہے۔
ساتویں اور آخری بات جذبہ اور لگن۔ اگر انسان جذبہ اور لگن سے سرشار ہو کر کام کرتا ہے
تو وہ اپنی دلی خواہشات کے حصول میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
اگر انسان کاہل اور سست ہو تو وہ صرف مقدر اور قسمت کا رونا ضرور رو سکتا ہے،
بذاتِ خود کسی کام کا اہل نہیں ہو سکتا۔
کیونکہ اگر انسان ہماری ضروریات کے حصول میں کامیاب ہو بھی جائے تو
وہ اِس کو خوشی سے ہمکنار نہیں کر سکتی ہے۔ جذبات ہی انسان کو خوشی و راحت کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
اگر دیوار پر لگی سیڑھی کے ذریعے مگر دیوار میں ٹیڑھ ہو تو چڑھنا فضول ہے۔
اس لیے انسان کو اندرونی جذبات کو زندہ رکھنا چاہئے نہ کہ صرف مادی ضروریات کو۔
24/02/24
مدثر احمد خان
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-18-1-scaled.jpg