انسان کے لیے کسی میلے کا تصور ہی شادمانی اور سرشاری کا باعث ہوتا ہے
میلہ دراصل میل جول کا نام ہوتا ہے جو عام وخاص انسانوں کو آپس میں
زمینی ،ثقافتی ،سماجی ،معاشی اور معاشرتی تعلقات اور روابط استوار کرنے کا ذریعہ بنتا ہے
اور انہیں ہر طرح کی زبان ،نسل ،اور مذہب سے بالا تر ایک بڑی برادری بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے
جہاں یہ میلے ہوتے ہیں وہاں انسانی محبتوں کے سوتے پھوٹتے ہیں اور وہاں کی ثقافت اجاگر ہوتی ہے
میلے کسی بھی سماج اور معاشرے کے تہذیبی و ثقافتی ورثے اور روایات کو
زندہ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں کہتے ہیں
جو قومیں اپنی تہذیب فراموش کر دیتی ہیں تاریخ بھی انہیں بھلا دیتی ہے
موجودہ نفسا نفسی کے گھٹن زدہ اور پرآشوب ماحول میں ان کی ضرورت
پہلے سب زیادہ محسوس کی جارہی ہے ۔
میں ریاست بہاولپور کے سابقہ دارالخلافہ ڈیرہ نواب صاحب کا رہنے والا ہوں
جہاں نواب امیر آف بہاولپور کا مشہور وائٹ پیلس یعنی صادق گڑھ پیلس واقع ہے
اور وقت کے بے رحم ہاتھوں سے رفتہ رفتہ کھنڈروں میں بدلنے کے باوجود
اس کی خوبصورتی اور عظمت میں کمی نہیں آئی ہے ۔
ڈیرہ نواب صاحب کو ریاست بہاولپور کے نوابین کا مسکن ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اعزاز بھی حاصل ہے
کہ یہ پاکستان کے بڑے صحرا چولستان کا گیٹ وے بھی کہلاتا ہے
مشہور اور تاریخی قلعہ ڈیراور جانے کےلیے یہی راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔
چولستان کا وسیع وعریض خطہ سدا اپنے ثقافتی میلوں کا علمبردار رہا ہے
جیسے جیسے بہار کی آمد ہوتی ہے میلے ٹھیلے سجنے لگتے ہیں
ہمارے بچپن میں مشہور بزرگ چننن پیر کا میلہ یہاں کی مذہبی اور ثقافتی اقدار کا امین
اور اس وسیب کی سب سے بڑی رونق ہوا کرتا تھا جو ایک ماہ تک ہر جمعہ کو آج بھی سجتا ہے
لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس میلے میں اپنے روائتی انداز میں شریک ہوتی ہے
اور اپنی سال بھر مصروفیات کو بھول بھال کر صحراے چولستان کی رنگینیوں میں کھو جاتی ہے
اور یہاں کی سرائیکی ثقافت خوب خوب دیکھنے کو ملتی ہے ۔
یہ تاریخی میلہ بچوں ،جوانوں ،بوڑھوں اور خواتین سب کے لیے کسی خواب سے کم نہیں ہوتا۔
لیکن پورے سال میں چولستان کے پانی اور خوشیوں کے متلاشی باشندوں کے لیے
یہ میلہ بہت کم سا لگتا تھا
جب کہ لوگ فرقوں ،برادریوں ،نسلوں اور دیگر گرہوں میں تقسیم ہونے لگے
تو میلوں ٹھیلوں کی روح پژمردہ ہوتی چلی گئی میلوں میں دلچسپی کم ہوئی
باہر کی فضا نامہربان ہوئی اور ہر کوئی اپنی اپنی ذات کے حصار میں قید ہوتا چلا گیا
الیکڑک میڈیا نے لوگوں کو گھروں میں جکڑ لیا ۔اس لیے شروع میں تو
قلعہ ڈیراوڑ کے مقام پر چھوٹے موٹے اجتماعات کا آغاز ہوا جہاں سرائیکی وسیب کے
گلوکاروں ، فن کاروں اور شاعروں کی محفلیں میلے کے نام پر سجائی جانے لگیں
لوگوں کی بے پناہ دلچسپی اور توجہ نے انہیں چار چاند لگا دیے تو لوگوں نے
شاعری ،موسیقی کے ساتھ ساتھ چولستان کی ٹھنڈی اور خوبصورت راتوں میں قیام کے لطف کو
محسوس کیا اور ایسے ایونٹ کو بڑے پیمانے کرانے کی سوچ بیدار ہونے لگی
اور پھر آج سے تقریبا” بیس سال قبل چولستان کے وسیع صحرا میں
حکومتی سطح پر محکمہ سیاحت کے زیر اہتمام ڈیزرٹ ریلی کا بڑے چھوٹے پیمانے پر آغاز ہوا
تو یہ سوچا بھی نہ جاسکتا تھا کہ یہ ایونٹ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور
بیرون ملک پاکستانیوں کی توجہ حاصل کرکے کے ایک انٹرنیشنل بڑے ایونٹ میں بدل جائےگا
اور چولستان کے لق و دق ریگستان میں تین دن کی یہ رنگ رنگا بہار سب کو اپنی جانب متوجہ کر لے گی
اور لوگوں کو گھروں سے نکال کر صحرا میں لے آے گی ۔
پاکستان میں کھیل ،سیاحت اور تفریح ایک ساتھ ملنا بڑا دشوار کام ہے
لیکن چولستان جیب ریلی وہ واحد فیسٹیول ہے جہاں یہ سب یکجا ہو جاتے ہیں
جس میں صوبہ پنجاب کے تیں اضلاع بہاولپور ،رحیم یار خان اور بہاولنگر میں
اس پاکستان کی سب سے بڑی جیب ریلی کا انعقاد چولستان جیب ریلی کے نام سے کیا جاتا ہے
اور قلعہ ڈیراور سے شروع ہوکر اپنے مقررہ راستوں سے گزر نے والی یہ گاڑیاں
پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکی ہیں ملک بھر سے گاڑیوں اور ریسنگ کے مقابلے کے شوقین افراد
پورے سال ہی اس کی تیاریاں جاری رکھتے ہیں ۔
پاکستان کا یہ بڑا اسپورٹس ایونٹ جہاں موٹر سپورٹس کے شائقین و پیشہ وار افراد کے لیے
ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے وہیں یہ مقامی لوگوں میں ایک تہورا کی پہچان بن چکا ہے
ریلی کے دوران چولستان کی ثقافت ،رہں سہن اور کھانے باہر سے آنے والے سیاحوں کی توجہ
اور دلچسپی کا باعث بنتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کو ان مشکلات اور
تکالیف کا بھی احساس بھی اجاگر ہوتا ہے
جو یہاں کے مقامی لوگوں کو روزمرہ زندگی میں درپیش ہیں ۔
ایک خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ اب نامور ملکی و غیر ملکی مرد ڈرائیورز کے ساتھ ساتھ
خواتین ڈرائیور بھی حصہ لینے لگیں ہیں اور خواتین شائقین کی شرکت بھی ہونے لگی ہے ۔
تین یا چار دن پر مشتمل یہ کھیل نہ صرف تفریح مہیا کرتا ہے بلکہ
ریاست بہاولپور کی تہذیب و تمدن اور ثقافتی ورثے کو اجاگر کرتا ہے اور
ریاست بہاولپور کے حکمرانوں کی عظمت و شان شوکت کو بھی ظاہر کرتا ہے ۔
اس ریلی کے شرکا سفر کے ایک منفرد اور ایڈونچر تجربے سے لطف اندوز ہونے کے
علاوہ چولستان اور برصغیر کی امیر ترین ریاست بہاولپور کےتاریخی مقامات کو بھی دیکھ سکتے ہیں
اور خاص طور پر چولستان کی خوبصورت اور ٹھنڈی رات میں یہاں کے مقامی لوک
فنکاروں کے پروگرام ،آتش بازی ،صحرائی محفوظ کیمپوں میں شب بسری اونٹ اور
جیب پر صحرا کے ٹیلوں پر سواری ان کے لطف کو مزید دوبالا کر دیتی ہے ۔
اس سال انیسو اں سالانہ انٹرنیشنل جیب ریلی کے اعلان کے ساتھ ہی چولستان میں
سیاحوں اور مقابلے میں حصہ لینے والوں کی ایک بڑی تعداد کی آمد شروع ہو چکی ہے
قلعہ ڈیراور اور اس کے اردگر جگہ جگہ ٹینٹ اور شامیانے لگنے شروع ہو چکے ہیں
ان تقریبات کا مرکز احمدپور شرقیہ ہوتا ہے جہاں پورا شہر اس ریلی میں شرکت اور
معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کو تیار ہے پورے بہاولپور ڈویژن میں ریلی کے دنوں میں
گہما گہمی اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے
اور اس سلسلے میں حکومتی انتظامی اداروں کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کی طرح
چیمبر آف کامرس اور بےشمار ادارے بھی متحرک نظر آتے ہیں ۔
پانچ دن پر محیط اس ریلی کی رنگا رنگ افتتاحی تقریب نور محل کے تاریخی اور
خوبصورت عمارت میں بیس فروری کو منعقد ہوگی
اور مختلف ریس اور گاڑیوں کی رجسٹریشن اور ٹیکنکل مراحل کے بعد کوالیفائنگ راونڈ ہوں گے
اور چوبیس اور پچیس فروری کو باقاعدہ ریلی کا انعقاد اور ریس کا مقابلہ
قلعہ ڈیراور سے شروع ہوگا بتایا جاتا ہے کہ اس مرتبہ اس ریلی میں
بائیک ،بسوں اور ٹرکوں کی ریس بھی شامل ہے
اور ریلی کا ٹریک دو سو کلو میٹر سے بڑھاکر چارسوپچاس کلو میٹر مقرر کیا گیا ہے
اور اس مرتبہ ایران ،کنییا اور تھائی لینڈ کے تین ڈرائیور بھی اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے ۔
اس موقع پر فراٹے بھرتی چھوٹی بڑی گاڑیاں چولستان بھر میں لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوں گی
ان گاڑیوں میں خصوصی ٹائروں کا استعمال ہوتا ہے جو ہائی وے اور
برف پر چلنے والے ٹائروں کا ملاپ ہوتا ہے ۔پچیس تاریخ کو اختتامی تقریب میں
جیتنے والوں میں تقسیم انعامات ہو گی ۔
دیکھتے ہیں کہ اس مرتبہ جیت کا یہ تاج کس کے سر سجتا ہے ؟
اس موقع پر ٹریفک اور سیکورٹی کے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں ۔
دوسری جانب کسی صحرا میں ریت کے اونچے نیچے ٹیلوں کے درمیان ایک خیموں اور
شامیانوں کا شہر آباد ہونے جارہا ہے یہ وہی چولستان ہے جو پاکستان کاسب سے خوبصورت صحرا ہے
اور مقامی طور پر اسے ” روہی ” کہا جاتا ہے پھر جیب ریلی کیا شروع ہوئی لوگ کھنچے چلے آتے ہیں
وہ صرف دھواں اڑاتی گاڑیاں ہی نہیں دیکھتے بلکہ اس صحرا کے دامن میں چھپے
امن و آشتی کے پیغام کو سنتے اور محسوس کرتے ہیں قومی یکجہاتی کا عملی مظاہرہ دیکھتے ہیں ۔
شاندار قلعہ ڈیراوڑ کا جاہ وجلال اور ہیبت دیکھ کر حیران ہوتے ہیں ۔
بہاولپور کے بادشاہوں کے مقبرے پر فاتحہ پڑھتے ہیں ۔تاریخی شاہی مسجد میں نماز ادا کی جاتی ہے
اس ریلی کی وجہ سے شہر نواباں بہاولپور اور اس کے بےشمار محلات دیکھنے کے ساتھ ساتھ
یہاں کی ثقافت اور تہذیب نہ صرف متاثر کن ہے
بلکہ یہاں کی میٹھی زبان کی چاشنی بھی زبان کا ذائقہ بدل دیتی ہے۔
جو اس بات کی متقاضی ہے کہ موسم سرما کے لیے بہتریں سیاحتی مرکز
ریاست بہاولپور اور صحراے چولستان ہی ہے ۔اس جیب ریلی میں شرکاء کی تعداد
پانچ لاکھ سے زیادہ متوقع ہے
جس کے لیے ٹریفک رواں رکھنا انتظامیہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج سمجھا جاتا ہے
جبکہ قلعہ ڈیراور کے ارد گرد کیمپنگ کے شائقین کے لیے
فوڈ سڑیٹ ،میوزیکل نائٹ ،آتش بازی ،اونٹ ڈانس ،نیزہ بازی ،کبڈی ،کے علاوہ مشاعرے اور
جابجا لوک موسیقی سننے کو ملتی ہے
جس کے لیے یہاں کے مقامی فنکار پورے سال اس ریلی کا انتظار کرتے ہیں ۔
چولستان کے پورے علاقے میں اس دوران موبائل سگنل یقینی بنانے کے لیے
خصوصی موبائل ٹاورز کا بھی انتظام سننے میں آرہا ہے ۔
رات کے اندھیرے مین روشنی بکھیرنے کے لیے اس ویران علاقے میں خصوصی انتظامات ہوتے ہیں
اور رات کو روشنی کے اس شہر میں فنکاروں کی پرفارمنس اس ایونٹ کو چارچاند لگادیتی ہے
کلچر نائٹ میں فنکاروں کا منفرد اور رنگ برنگ لباس اور ان کے آلات موسیقی
پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں ۔
یہ جنگل بیابان جہاں سورج ڈھلتے ہی ویرانی کا راج ہوتا ہے
سال میں ایک بار یہاں کے لوگوں کے ساتھ ساتھ یہ علاقہ بھی جی اُٹھتا ہے ۔
احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان