روشن سوچ کی علمبردار محترمہ شاہین عتیق الرحمٰن

منشا قاضی حسب منشا

 

 

پاکستان کی تاریخ میں کچھ ایسی خواتین شخصیات موجود ہیں جنہوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم، وسیع النظر فہم، سماجی شعور اور عملی جدوجہد کے ذریعے معاشرے کے کمزور اور پسماندہ طبقوں کی زندگی بدلنے میں لازوال کردار ادا کیا۔ ان ہی درخشاں ناموں میں محترمہ شاہین عتیق الرحمٰن کا نام نہایت نمایاں ہے، جن کی زندگی کا سفر ایک معتبر خاندانی پس منظر سے شروع ہو کر عوامی خدمت اور علم و آگہی کی روشنی بانٹنے تک پہنچا۔

خاندانی پس منظر اور ابتدائی زندگی
شاہین عتیق الرحمٰن اپریل 1948ء میں سیالکوٹ کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد جنرل عتیق الرحمٰن (مرحوم) پاکستان کی دفاعی تاریخ کا ایک نمایاں نام تھے۔ ان کے نانا سر شفاعت احمد خان اور پردادا جسٹس شاہ دین، دونوں برصغیر کے علمی و عدالتی حلقوں میں معتبر مقام رکھتے تھے۔ اس اعلیٰ علمی و ادبی ورثے نے شاہین عتیق الرحمٰن کی شخصیت میں خود اعتمادی، خدمتِ خلق کا جذبہ اور علم دوستی کے رنگ اور گہرے کر دیے۔

تعلیم
محترمہ نے اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ لاہور میں جاری رکھا اور پنجاب یونیورسٹی سے 1971ء میں ماسٹرز (ایڈمنسٹریٹو سائنسز) اور 1975ء میں قانون (ایل۔ایل۔بی) کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم کے دوران ہی ان کی شخصیت میں وہ انتظامی صلاحیتیں اور فکری پختگی پروان چڑھیں جنہوں نے بعد میں ان کی سماجی اور سیاسی خدمات میں رہنمائی کی۔

سماجی اور تعلیمی خدمات
محترمہ شاہین عتیق الرحمٰن نے اپنی زندگی کو صرف ذاتی کامیابیوں تک محدود نہ رکھا بلکہ ملک کی خواتین، غریب اور پسماندہ طبقوں کی فلاح کو اپنا نصب العین بنایا۔ 1984ء میں وہ بطور لیڈی کونسلر لاہور میونسپل کارپوریشن سے منسلک ہوئیں اور اس کے بعد ان کا سیاسی و سماجی سفر کئی اہم مناصب تک پہنچا۔ وہ 1985ء میں صوبائی کونسل کی رکن اور اسی برس پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں، جہاں انہوں نے 1985ء سے 1987ء تک صوبائی وزیر برائے سماجی بہبود اور خواتین کی ترقی کے طور پر خدمات انجام دیں۔
اسی عرصے میں انہوں نے خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے اور سماجی فلاحی پروگراموں کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 1987ء سے 1993ء تک وہ پنجاب سوشل سکیورٹی بورڈ (PSSB) کی چیئرپرسن رہیں اور 1994ء میں پنجاب ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کی سربراہی بھی کی۔

بین الاقوامی پہچان اور اعزازات
ان کی جدوجہد کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر بھی سراہا گیا۔ 1998ء میں یونیسکو، پیرس نے انہیں کمیونس میڈل سے نوازا۔ مزید برآں، انہیں یونیسکو ہیڈ کوارٹرز پیرس کی جانب سے کنگ سیجونگ ایوارڈ دیا گیا، جو خواندگی کے شعبے میں عالمی سطح پر ایک بڑا اعزاز ہے۔ پاکستان کی حکومت نے بھی ان کی غیر معمولی خدمات پر صدارتی اعزاز “عزیزہ فضیلت” سے نوازا۔

بین الاقوامی سفر اور نمائندگی
محترمہ نے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ دنیا کے مختلف خطوں میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی۔ انہوں نے امریکہ، برطانیہ، بیلجیم، جاپان، چین، سوئٹزرلینڈ، اٹلی، جرمنی، فرانس، انڈونیشیا، ملائیشیا، منگولیا سمیت 42 ممالک کا دورہ کیا۔ ان کے یہ سفر صرف نمائشی نہ تھے بلکہ ہر ملک کے تعلیمی و سماجی ماڈلز کو دیکھنے، سمجھنے اور پاکستان کے حالات سے ہم آہنگ کرنے کی عملی کوشش کا حصہ تھے۔

بُنیاد اور خواندگی کی تحریک
شاہین عتیق الرحمٰن کی شخصیت کا سب سے روشن باب “بُنیاد” کے نام سے معروف این جی او ہے، جس کی وہ موجودہ وقت میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور وائس چیئرپرسن ہیں۔ یہ ادارہ بالخصوص خواندگی، خواتین کی ترقی اور پسماندہ طبقوں کے حقوق کے لیے سرگرم ہے۔ ان کے پروگرامز نے لاکھوں افراد کو خواندہ بنانے میں مدد دی ہے اور خواتین کو عملی زندگی میں قدم رکھنے کا حوصلہ بخشا ہے۔

فکری وژن اور محرکات
ایک اعلیٰ گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود محترمہ نے اپنی زندگی کو مراعات یافتہ طبقات تک محدود نہ کیا۔ بلکہ انہوں نے جھونپڑیوں، کچی آبادیوں اور دیہی علاقوں میں بسنے والی خواتین کے مسائل کو قریب سے دیکھا اور سمجھا۔ یہی مشاہدہ ان کے لیے تحریک بنا کہ وہ ان محروم طبقات کو تعلیم اور شعور کی طاقت سے مضبوط کریں۔
شاہین عتیق الرحمٰن کی شخصیت دراصل اس حقیقت کی عکاس ہے کہ خاندانی عظمت وراثت میں مل سکتی ہے، مگر اصل عظمت انسان اپنے عمل، خدمت اور جدوجہد سے کماتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو ایک مشن میں ڈھال دیا اور اپنی محنت سے یہ ثابت کیا کہ تعلیم، سماجی بہبود اور خواتین کی ترقی ہی ایک مضبوط اور خوشحال معاشرے کی بنیاد ہیں۔ محترمہ شاہین عتیق الرحمٰن ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے خاندانی وقار اور علمی پس منظر کو عوامی خدمت کے مشن میں ڈھال دیا۔ محترمہ شاہین عتیق الرحمٰن کی زندگی کا سفر محض ایک شخص کی کامیابیوں کا احوال نہیں بلکہ یہ پاکستان کی عورت کے عزم، حوصلے اور خدمتِ خلق کے جذبے کی ایک مثال ہے۔ ان کی خدمات نے جہاں پاکستان کو عالمی سطح پر عزت بخشی، وہیں لاکھوں غریب اور پسماندہ لوگوں کی زندگیوں میں روشنی بھی بھری۔ بلا شبہ وہ آج بھی پاکستان کی خواتین اور سماجی خدمت کے میدان میں ایک مشعلِ راہ ہیں۔ ممتاز سماجی سائنسدان روٹیریئن ڈاکٹر نور الزماں میرے ہمدم و دمساز ہیں ان کی رفاقت میں گذشتہ روز سی ٹی این فورم ہال یوفون بلڈنگ نزد منی مارکیٹ سے کلمہ چوک تک کا سفر ایک گھنٹے میں طے ہوا اور ڈاکٹر نور الزماں نے ماضی کی یادوں کے بطن سے ایک عظیم المرتبت ہستی کی یادوں کو یوں تخلیق کیا کہ وہ مجھے محترمہ شاھین عتیق الرحمن سے ملوائیں گے اور تب میں موصوفہ کے بارے میں ایک کالم لکھوں گا ۔ چلو اچھا ہوا کہ میں نے تصور کی روشنی میں ہی خامہ فرسائی کر دی ۔ کیونکہ

جب سے ملی ہے مجھ کو تصور کی روشنی

دیکھے بغیر تجھ کو پہنچانتا ہوں میں

مکرر ڈاکٹر صاحب کا ممنون احسان ہوں جنہوں نے ماضی کی عظیم سماجی سائنسدان خاتون شاھین عتیق الرحمن کی یادوں کے چراغ روشن کر دیئے ۔ سی ٹی این فورم کے چئرمین مسعود علی خان بھی موصوفہ کے بارے میں جانتے ہیں ۔ ڈاکٹر نور الزماں سے

Comments (0)
Add Comment