سہولت یا سر درد؟ پاکستان کے موبائل نیٹ ورک کی داستان

تحریر: انجینئر بخت سید یوسفزئی - قلمِ حق (engr.bakht@gmail.com) (بریڈفورڈ، انگلینڈ)

پاکستان میں موبائل فون آج زندگی کا ایسا لازمی حصہ بن چکا ہے جس کے بغیر نہ تعلیم مکمل ہو سکتی ہے، نہ کاروبار آگے بڑھ سکتا ہے، نہ ہی گھریلو معاملات سہولت کے ساتھ نمٹائے جا سکتے ہیں۔ یہ وہ آلہ ہے جس نے فاصلے سمیٹ دیے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ سہولت جو زندگی کو آسان بنانے کے لیے وجود میں آئی تھی، ہمارے ملک میں اذیت کا باعث کیوں بن چکی ہے؟

پاکستان میں موبائل نیٹ ورک استعمال کرنے والے لاکھوں صارفین روزانہ کی بنیاد پر ایسی مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں جن کا تصور بھی ترقی یافتہ ممالک میں نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کسی صارف کو ڈپلیکیٹ سم چاہیے تو بھاری فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ اگر کوئی اپنی سم بند کروانا چاہے تو اس کے بھی الگ سے چارجز وصول کیے جاتے ہیں اور اس کام کے لیے صارف کو ہیڈ آفس کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ بیلنس چیک کرنے جیسی بنیادی سہولت پر بھی کٹوتی کی جاتی ہے اور ہیلپ لائن پر کال کرنے پر بھی چارجز لگائے جاتے ہیں۔ عام لوگ شکایت کرتے ہیں کہ صبح اپنے نمبر پر لوڈ ڈالا اور شام تک بغیر کسی بڑی کال یا انٹرنیٹ کے استعمال کے بیلنس غائب ہو گیا۔

یہ سب کچھ برداشت کرنے کے بعد بھی جب کوئی صارف کال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اکثر نیٹ ورک ہی غائب ہوتا ہے۔ اگر کبھی سگنل آ بھی جائیں تو کال کنیکٹ نہیں ہوتی اور اگر خوش قسمتی سے کال کنیکٹ ہو بھی جائے تو آواز کا معیار اتنا خراب ہوتا ہے کہ گفتگو جاری رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ انٹرنیٹ کا حال اس سے بھی برا ہے۔ بنیادی ایپس مشکل سے چلتی ہیں، ویڈیو کال یا آن لائن میٹنگز تو محض ایک خواب ہیں۔

کمپنیوں نے پیکیجز کے نام پر ایسے ایسے آپشنز متعارف کرا دیے ہیں جنہیں سمجھنا عام صارف کے بس کی بات نہیں۔ درجنوں پیکیجز، سینکڑوں شرائط اور الجھی ہوئی تفصیلات عوام کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں لگتیں۔ لیکن جب بات معیار کی آتی ہے تو تمام کمپنیاں—موبی لنک، ٹیلی نار، زونگ اور یوفون—ایک ہی صف میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ کسی کا حال دوسرے سے بہتر نہیں۔

اب اگر اس صورتحال کا موازنہ انگلینڈ سے کیا جائے تو فرق زمین آسمان کا ہے۔ صارف اگر کسی کمپنی کی سروس سے مطمئن نہ ہو تو نیٹ ورک بدلنے کے لیے کوئی مشکل مرحلہ طے نہیں کرنا پڑتا۔ صارف صرف ایک فون کال کرتا ہے یا پھر ایک سادہ سا ٹیکسٹ میسج بھیجتا ہے، اور فوراً “PAC Code” حاصل کر لیتا ہے۔ اس کوڈ کی مدد سے چند گھنٹوں یا زیادہ سے زیادہ ایک دن کے اندر صارف کا نمبر نئے نیٹ ورک پر منتقل ہو جاتا ہے۔ نہ کوئی اضافی فیس، نہ ہیڈ آفس کے چکر، نہ غیر ضروری کاغذی کارروائی۔ اگر صارف کا کمپنی کے ساتھ کوئی کانٹریکٹ جاری ہو تو قبل از وقت نیٹ ورک بدلنے پر کچھ اخراجات آ سکتے ہیں، لیکن جیسے ہی کانٹریکٹ ختم ہوتا ہے، صارف کو مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ جس کمپنی کو چاہے منتخب کرے۔

یہی نہیں بلکہ بیلنس چیک کرنا بالکل مفت ہے، کسٹمر سروس پر کال کرنا بھی مفت ہے اور پیکیجز بالکل واضح اور شفاف ہیں۔ کوئی چھپی ہوئی فیس یا اچانک ہونے والی کٹوتی وہاں سوچ سے بھی باہر ہے۔ اگر کسی علاقے میں سگنل کمزور ہوں تو کمپنیاں فوری طور پر اس مسئلے کو حل کرتی ہیں کیونکہ صارف کو ناراض کرنا کسی کمپنی کے لیے ناقابلِ برداشت نقصان ہے۔ نتیجہ یہ کہ صارف کو کبھی یہ سوچنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی کہ اس نے پیسے ضائع کیے یا نہیں، کیونکہ ہر سہولت معیار کے ساتھ فراہم کی جاتی ہے۔

یہ تقابل ایک کڑوا سچ ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ اصل مسئلہ ٹیکنالوجی کا نہیں بلکہ رویے اور نظام کا ہے۔ جہاں ریاست اور ادارے عوامی مفاد کو اولین ترجیح دیتے ہیں، وہاں کمپنیاں بھی صارفین کے حقوق کا احترام کرتی ہیں۔ لیکن جہاں ادارے صرف تماشائی بن جائیں، وہاں عوام ہمیشہ خمیازہ بھگتتے ہیں۔ پاکستان میں لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے پیسے کے بدلے انہیں صرف یہ اطمینان ملے کہ وہ کال کر سکیں، انٹرنیٹ استعمال کر سکیں، اور غیر ضروری کٹوتیوں سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ کوئی غیر حقیقی مطالبہ نہیں بلکہ بنیادی حق ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے جاگیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو چاہیے کہ وہ عوامی مشکلات کو سنجیدگی سے لے اور کمپنیوں کو جواب دہ بنائے۔ اگر غیر ضروری فیسیں اور کٹوتیاں ختم نہ کی گئیں، اگر نیٹ ورک کے معیار کو بہتر نہ بنایا گیا، تو یہ اعتماد ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ اور جب عوام یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ہمارے ہاں موبائل نیٹ ورک سہولت نہیں بلکہ مصیبت ہیں، تو یہ جملہ صرف ایک شکایت نہیں رہے گا بلکہ آنے والے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوگا۔

Comments (0)
Add Comment