بادلوں کی صدا اور نبی ﷺ کی دعا

تحریر: انجینئر بخت سید یوسفزئی - قلمِ حق (engr.bakht@gmail.com) (بریڈفورڈ، انگلینڈ)

انسان کی زندگی خوشی اور غم، امن اور خوف، سکون اور بے چینی کے ملے جلے احساسات سے بنی ہے۔ یہ کائنات اپنی تمام تر رعنائیوں اور وسعتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے۔ کبھی یہ نشانیاں رحمت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں اور کبھی عذاب کی شکل میں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ سکھایا کہ ان مظاہر کو محض ایک قدرتی یا سائنسی عمل نہ سمجھو بلکہ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی حکمت، رحمت اور کبھی کبھار عذاب کو بھی دیکھو۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب تیز ہوا چلتی تو رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہو جاتا۔ میں نے عرض کیا: “یا رسول اللہ! لوگ تو خوش ہوتے ہیں کہ ہوا آئی ہے لیکن آپ کو پریشانی لاحق ہو جاتی ہے؟” آپ ﷺ نے فرمایا: “اے عائشہ! مجھے کیا معلوم شاید اس میں عذاب ہو جس کے ساتھ کوئی قوم ہلاک کر دی گئی تھی۔ قوم عاد نے جب بادل کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے: یہ بادل ہمیں بارش دینے والا ہے، حالانکہ وہ وہی عذاب تھا جو ان پر نازل ہوا۔” (صحیح بخاری، حدیث: 4829؛ صحیح مسلم، حدیث: 899)

یہ روایت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ فطرت کے مظاہر کو محض معمولی عناصر نہیں سمجھتے تھے بلکہ ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کو دیکھتے تھے۔ آپ ﷺ کی زندگی ہر مسلمان کے لیے ایک عملی مثال ہے کہ خوف اور امید دونوں کو دل میں رکھنا ایمان کی حقیقت ہے اور یہ احساس انسان کو اللہ کے قریب کرتا ہے۔

قرآن کریم میں قوم عاد کا قصہ کئی مقامات پر بیان ہوا ہے۔ یہ لوگ بڑے طاقتور، مالدار اور خوشحال تھے، مگر اللہ کی نافرمانی اور نبی ہود علیہ السلام کی نصیحتوں کو نظر انداز کرنے کے باعث وہ عذاب کا شکار ہوئے۔ اللہ کے عذاب نے انہیں بادلوں کی شکل میں اپنی گرفت دکھائی، اور وہ لوگ خوش تھے کہ یہ بارش اور خوشحالی کا ذریعہ ہے، حالانکہ حقیقت میں یہ عذاب تھا۔ اسی طرح ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ اللہ کے فیصلے انسانی فہم سے بالاتر ہوتے ہیں اور قدرتی مظاہر اکثر نصیحت اور تنبیہ کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ اللہ کے قریب اور سب سے زیادہ معصوم تھے، پھر بھی آپ ﷺ کے چہرے پر بادل یا تیز ہوا کے اثرات واضح ہوتے تھے۔ یہ کیفیت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اللہ کے حبیب ﷺ کا خوف اور اللہ کی پناہ طلب کرنے کا رویہ امت کے لیے رہنمائی ہے۔ اگر سب سے بڑے اور معصوم ترین انسان اس طرح خوف و خشیت میں مبتلا ہو سکتے ہیں تو عام انسانوں کے لیے یہ کتنا ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اللہ کے خوف اور رحمت کے توازن کو برقرار رکھیں۔

آج کے دور میں ہم مسلمان قدرتی مظاہر کو محض سائنس یا موسم کی تبدیلی کے طور پر دیکھنے لگے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مظاہر اللہ کی حکمت، طاقت اور کبھی کبھار عذاب کی یاد دہانی ہیں۔ خیبرپختونخوا اور شمالی علاقوں میں لوگ بادل دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں، گزشتہ سیلابوں اور زلزلوں کی یادیں ان کے دلوں میں گھبراہٹ پیدا کرتی ہیں۔ افغانستان میں حالیہ زلزلے نے سینکڑوں جانیں لیں، ہزاروں لوگ زخمی اور بے گھر ہوئے، اور یہ سب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسانی طاقت کے باوجود قدرت کے مظاہر کے سامنے انسان ہمیشہ بے بس ہے۔

قدرتی آفات انسان کی عاجزی اور اللہ کے قبضے کی یاد دہانی ہیں۔ انسان چاہے کتنی بھی ترقی کر لے، تکنیکی اور سائنسی لحاظ سے مضبوط ہو جائے، لیکن قدرت کے مظاہر کے سامنے وہ ہمیشہ محدود اور بے بس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر قدرتی مظہر کو اللہ کے عذاب یا رحمت کے طور پر دیکھتے اور اپنی دعاوں میں عاجزی کا مظاہرہ کرتے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں پر غور کریں اور خود سے یہ سوال کریں کہ کیا ہم اللہ کی تنبیہات کو سمجھتے ہیں یا محض معمولی قدرتی مظاہر سمجھ کر ان سے غافل ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم سچے دل سے توبہ کریں اور استغفار کریں، حقوق العباد کی ادائیگی یقینی بنائیں، مظلوموں، یتیموں اور آفت زدہ لوگوں کی مدد کریں اور قدرتی آفات کو محض سائنسی مظاہر نہیں بلکہ اللہ کی تنبیہ اور عبرت سمجھیں۔ تاریخی اور موجودہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ جب انسان اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور آفات کو نصیحت نہ سمجھتا ہے تو اس کا انجام تباہ کن ہوتا ہے۔ سیلاب، زلزلے، قحط اور وبائیں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ اللہ کے فیصلوں میں حکمت پوشیدہ ہے اور ہر آفت ہمیں سوچنے اور سدھارنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

تاریخی حوالے سے دیکھیں تو قوم لوط، قوم ثمود، اور نبی نوح علیہ السلام کے زمانے کی قومیں بھی اسی طرح اللہ کی نصیحتوں کو نظر انداز کر کے اپنی دنیاوی طاقت پر بھروسہ کر بیٹھیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے گناہوں کی سزا دی اور وہ نسلیں زمین سے مٹ گئیں۔ یہی سبق ہمیں آج بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انسانی طاقت، دولت، اور ٹیکنالوجی اللہ کے فیصلوں کے سامنے کچھ نہیں اور ہر آفت انسان کو عاجزی اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کا موقع دیتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: “اور ہم انہیں زمین و آسمان کی چھوٹی چھوٹی سزائیں چکھاتے ہیں تاکہ وہ پلٹ آئیں۔” (سورۃ السجدہ، آیت 21) یہ آیات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہر قدرتی آفت، ہر مشکل اور ہر مصیبت ایک نصیحت اور ایک تنبیہ ہے۔ اگر ہم اس سے سبق حاصل کریں تو یہ ہمارے لیے رحمت بن جاتی ہے، اور اگر ہم اسے نظرانداز کریں تو یہی ہمارے لیے تباہی کا سبب بنتی ہے۔

آج کے عالمی حالات بھی اسی حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں زلزلے، سیلاب، قحط اور دیگر قدرتی آفات انسانی زندگی کو متاثر کر رہی ہیں۔

Comments (0)
Add Comment