ترقی – راستے اور منزلیں

بیرسٹر مجتبٰی جمال

آج کے انسان کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ترقی کیا ہے؟ ہم اس وقت ترقی کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم سب بہتر ہونا چاہتے ہیں، آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ انسان کی متعین اشیاء کی ضرورت، ان کی طلب اور حصول کو ترقی کا نام دے دیتی ہے۔ مثلا، روٹی، کپڑا، مکان، گاڑی، دولت۔ یہ انسان کی بنیادی ضروریات ہیں، ترقی نہیں۔ زندہ اور متحرک معاشرے ترقی کے معانی متعین کرتے ہیں۔ جس معاشرے میں ترقی کا تصور واضح اور اجتماعی طور پر تشکیل نہ دیا جائے، وہ معاشرہ ہمیشہ بے یقینی، افراتفری اور اتار چڑھاو کا شکار رہتا ہے۔ ایسے معاشرے میں فرد کی بنیادی ضروریات پوری کرنا بھی مشکل ہو جاتی ہیں، اور ان کے حصول کو ہی ترقی مان لیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ایسے معاشروں میں بنیادی ضروریات کے حصول کی یہ جدوجہد کبھی مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوتی، اور اکثریت ترقی کی بجائے بقا کی اس جنگ میں مصروف رہتی ہے۔ انفرادی طور بقا کی جنگ جیتنے سے ترقی کی منزل حاصل نہیں ہوتی کیونکہ مکمل ترقی ایک سماجی تصور ہے۔

سوال تو یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں ترقی کا اجتماعی تصور اور معنی کیسے وجود میں آتا ہے؟ کیا یہ بقا کی جنگ میں مصروف فرد کی طرف سے آتا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ عام طور پر ایک پورا معاشرہ، ہر وقت بقا کی جنگ نہیں لڑ رہا ہوتا۔ اس کا ایک حصہ یا کچھ افراد یہ جنگ جیت کر بنیادی ضروریات کے حصول کی منزل حاصل کر لیتے ہیں، اور ایک آرام دہ اور خوشحال زندگی کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں۔ یہ افراد ہر شعبہ ہائے زندگی میں موجود ہوتے ہیں۔ ایسے افراد بنیادی ضرورتوں کے حصول کی جدوجہد میں مصروف افراد کے لئے قدرتی طور پر ترقی کا نشان بن جاتے ہیں۔ آرام دہ اور خوشحال زندگی کے مرحلے تک پہنچنے والوں کا اختیار کیا ہوا راستہ، اجتماعی اقدار کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور معاشرے میں ترقی کے خواہشمند افراد اس راستے کو شعوری یا غیر شعوری طور پر اختیار کر لیتے ہیں۔ عام معنوں میں اسے ہی ترقی اور ترقی کا معیار سمجھا جاتا ہے۔

ترقی کے مفہوم کے تعین کی بنیادی ذمہ داری انہیں افراد پر آتی ہے جو آرام دہ اور خوشحال زندگی کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں۔ اول تو انہوں نے ترقی کے لئے جو راستہ منتخب کیا ہوتا ہے، وہ پیچھے آنے والوں کے لئے از خود مثال بن جاتا ہے۔ دوم، زندگی کے اس مرحلے میں وہ اپنے شعبے میں جو رویہ اختیار کرتے ہیں اور جو فیصلے کرتے ہیں، وہ ترقی کے اجتماعی سطح پر تصور اور معانی متعین کرنے میں گہرا کردار ادا کرتے ہیں۔ اپنے مقام کے باعث وہ بقا کی جدوجہد میں مصروف لوگوں پر قدرتی اور اختیاری دونوں اثر رکھتے ہیں۔ ان کے فیصلوں اور رویوں سے معاشرے کے اقدار جنم لیتے ہیں۔

آرام دہ اور خوشحال زندگی کے مرحلے میں داخل ہونے والے یہ افراد، جو معاشرے کے وسائل پر اختیار رکھتے ہیں، اگر اپنے روئیے اور فیصلوں کو محض اپنی ضرورتوں کی تکمیل تک ہی محدود رکھیں تو جنگل کا کلچر پروان چڑھتا ہے جس میں ضرورت کا مکمل ہونا ہی ان کے شعبے اور معاشرے کی بنیادی اقدار بن جاتی ہے اور باہمی تعلق، تعلیم، انصاف، معیشت اور معاشرت کا بنیادی مفہوم ضرورتوں کی سطح پر ہی طے پاتا ہے۔

ایک دوسری صورت یہ ہے کہ معاشرے کے وسائل پر اختیار رکھنے والے افراد، ضرورتوں کی تکمیل کے بعد، ایک تخلیقی عمل کا آغاز کریں جس میں وہ اپنے انفرادی اثر رسوخ اور تجربے کی بدولت، اپنے شعبے یا اجتماعی ضرورتوں کے تصور اور معنی متعین کرنے کا بیڑا اٹھائیں۔ اس کے لئے، ان کےذہنی ارتقاء کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اگر معاشرے کے باوسائل افراد اس عمل کا آغاز کر دیں تو ان کے شعبے اور معاشرے کی اصل ترقی کی طرف یہ پہلا قدم ہوتا ہے۔ اس عمل میں بلآخر پورا معاشرہ شامل ہو جاتا ہے، اور باہمی تعلق، تعلیم، انصاف، معیشت اور معاشرت کے تصور اور معنی ایک اجتماعی اتفاق رائے سے جنم لیتے ہیں۔ یوں ایک معاشرہ اپنے لئے ترقی کا تصور اور مفہوم متعین کرتا ہے۔ لہٰذا، کسی معاشرے کی دیرپا اور اجتماعی ترقی کے لئے باوسائل لوگوں میں شعور کی نشوونما اور اجتماعی سوچ کو پروان چڑھانا ضروری ہے۔ یہ جہت ہمارے قومی مکالمے اور اہداف کا حصہ ہونا چاہئے۔

Comments (0)
Add Comment