وزیراعظم شہبازشریف نے بیجنگ میں چینی ہم منصب لی چیانگ سے ملاقات کی جس میں سی پیک فیز ٹو اور 5 نئے کوریڈورز قائم کرنے کے ساتھ ساتھ گوادر بندرگاہ جلد از جلد فعال کرنے کا فیصلہ کیا گیا، پاکستان اور چین کے درمیان 4.2 ارب ڈالر کی مفاہمتی یادداشتوں ( ایم او یو ز) پر بھی دستخط کیے گئے۔
قبل ازیں چین کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی پریڈ نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھا جس میں چینی صدر نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ انسانیت امن اور جنگ کے درمیان ایک فیصلہ کن انتخاب کے دہانے پر کھڑی ہے، اس موقع پر ان کے ساتھ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور شمالی کوریا کے کِم جونگ اُن اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف بھی موجود تھے۔ اگر اس پریذ میں کسی ملک کے سربراہ نہیں تھے تو وہ بھارت ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اس تاریخی ایونٹ میں شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔
پاکستان اور چین کے درمیان دیرینہ اسٹریٹجک شراکت داری ہے جس کا دائرہ تجارت، توانائی، دفاع اور بنیادی ڈھانچے سمیت کئی شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ وزیر اعظم شہباز چین کے چھ روزہ دورے پر تھے جہاں انہوں نے 31 اگست سے یکم ستمبر تک ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او ) سمٹ میں شرکت کی۔
پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کی جانب سے بیجنگ میں ہونے والی ملاقات کے بعد جاری کردہ بیان کے مطابق، ’ دونوں فریقین نے اپ گریڈ شدہ سی پیک 2.0 کے اگلے مرحلے پر قریبی تعاون جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا، جس میں پانچ نئے راہداری منصوبے شامل ہیں۔’
ڈان نیوز کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اور عوامی جمہوریہ چین کے پریمیئر لی چیانگ کے درمیان وفود کی سطح پر ہونے والی بات چیت کے بعد چینی وزیراعظم کی جانب سے وزیراعظم پاکستان کے اعزاز میں ایک پروقار ظہرانہ بھی دیا گیا۔
دونوں رہنماؤں نے پاک چین تعلقات کی مثبت رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا جب کہ وزیراعظم نے پاکستان کی علاقائی سالمیت، خودمختاری اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے غیر متزلزل حمایت پر چینی قیادت اور قوم کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔
دونوں رہنماؤں نے صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان 2 ستمبر 2025 کو ہونے والی ملاقات میں طے پانے والے اہم اتفاق رائے کی روشنی میں پاک چین ہمہ موسمی تزویراتی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اس موقع پر مشترکہ ایکشن پلان 29-2024 پر دستخط کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا گیا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جاری اصلاحاتی اقدامات کے مثبت نتائج چین کی بھرپور حمایت کے باعث ممکن ہو سکے ہیں، انہوں نے جلد ہی چینی کیپٹل مارکیٹ میں پانڈا بانڈز کی فراہمی کے پاکستان کے ارادے کا بھی اظہار کیا۔
وزیر اعظم نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی اہم شراکت کو اجاگر کیا جب کہ قراقرم ہائی وے اور ایم ایل ون کو دوبارہ ترتیب دینے اور گوادر پورٹ کی آپریشنلائزیشن کے جلد نفاذ کی ضرورت پر زور دیا۔
بزنس ٹو بزنس تعاون اور سرمایہ کاری کے وسیع امکانات پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم نے چینی وزیر اعظم کو بیجنگ میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس کے بارے میں بتایا جس میں 300 سے زائد پاکستانی کمپنیاں اور 500 چینی کمپنیاں شریک ہو رہی ہیں۔
انہوں نے زراعت، کان کنی و معدنیات، ٹیکسٹائل، صنعتی شعبے اور آئی ٹی کو باہمی طور پر فائدہ مند اقتصادی تعاون کے لیے ترجیحی شعبے قرار دیا۔
وزیراعظم نے صدر شی جن پنگ کے عالمی گورننس انیشی ایٹو، گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو،گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشیٹو سمیت کثیرالجہتی کو مضبوط بنانے کے لیے صدر شی جن پنگ کے تاریخی اقدامات کے لیے پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا۔
دونوں رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ اگلے سال پاک چین سفارتی تعلقات کے قیام کی 75ویں سالگرہ منائیں گے۔
اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ پاک چین تعلقات بہت خاص نوعیت کے حامل ہیں۔ یہ بھائی چارے ‘ دوستی اور اعتماد کا وہ باب ہے جس کی بنیاد ستر سال سے زائد عرصہ قبل رکھی گئی تھی۔
دونوں ممالک کی اس وقت کی قیادت نے انتہائی بالغ نظری سے ایک مستحکم تعلق کا آغاز کیا جو ہر گزرتے برس کے ساتھ ساتھ مزید مؤثر’ مضبوط اور توانا تر ہوتا گیا۔ نہایت مہارت اور ہوشمندی سے تشکیل دیا گیا یہ خاص تعلق وقت کی ہر آزمائش پر پورا اترا ہے اور لمبے عرصے کی تزویراتی شراکت پر محیط ہے۔
پاکستان اور چین کی لازوال شراکت داری اور گہری دوستی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اور یہ ہمارے عوام کا تاریخی انتخاب ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ترین ستون ہیں۔
چین کے ساتھ قریبی دوستی کو پاکستانی عوام کی مستقل حمایت حاصل ہے۔بے مثال دوستی پر مبنی دو برادر ممالک کا یہ بھائی چارہ وقت کے ہر امتحان پر پورا اترتا آیا ہے اور دونوں ممالک ہر قسم کے تغیرات زمانہ سے بے نیاز ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔
دونوں ممالک کے باہمی تعاون اور تزویراتی شراکت کا یہ پودا اب ایک تناور درخت بن چکا ہے اور اس کی پیار بھری جڑیں ہمارے لوگوں کے دلوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔
دونوں ممالک کے عوام کے مابین محبت و الفت کا یہ رشتہ درحقیقت ”پہاڑوں سے بلند’ سمندر سے گہرا اور شہد سے میٹھا” ہے۔چین کے پہلے وزیراعظم چو این لائی نے ایک بار کہا تھا چین اور پاکستان کے عوام کے درمیان دوستانہ روابط زمانہ قدیم سے ہیں۔ یقیناً پاک چین تعلقات ہمارے لوگوں کے درمیان موجود قدیم تہذیبی رشتوں کا تسلسل ہیں۔
قدیم شاہراہ ریشم کے ذریعے ہونے والی تجارت اور جغرافیائی قربت دونوں عظیم ایشیائی تہذیبوں میں قربت کا سبب بنی۔ زمانہ ٔ قدیم سے چین کے راہب اور مفکر ٹیکسلا اور پاکستان میں موجود بدھ مت کے دیگر مقامات کا سفر کرتے آئے ہیں جس کے ذریعے گندھارا آرٹ اور بدھ مت کی حکمت چین تک پہنچی جو دونوں قوموں کے مابین ایک لازوال بندھن کا باعت بنی۔پاک