پاکستان میں بڑھتے سیلاب اور قدرتی آفات یا انسانی غفلت؟

تحریر: ڈاکٹر آصفہ میو، لاہور

شدید بارشوں، موسمیاتی تبدیلی اور ناقص منصوبہ بندی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کو بدترین تباہی سے دوچار کر دیا، ماہرین نے جامع اقدامات پر زور دیا۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان نے ایسے تباہ کن سیلاب دیکھے ہیں جن کی مثال ماضی میں کم ہی ملتی ہے۔ بالخصوص پنجاب اور خیبر پختونخوا ان آفات سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا یہ صرف قدرتی آفات ہیں یا ہماری اپنی غفلت نے ان نقصانات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔

اس تباہی کے کئی اسباب ہیں۔ ایک طرف موسمیاتی تبدیلی اور غیر معمولی بارشوں نے صورتحال کو بے قابو کیا، تو دوسری جانب دریاؤں کے فلڈپلین پر بے ہنگم آبادکاری، نکاسیٔ آب کے ناقص نظام، اور گورننس کی کمزوریاں بڑے نقصان کا باعث بنیں۔ نتیجتاً دیہات کے کسان اپنی زمینوں اور مویشیوں سے محروم ہو گئے جبکہ شہروں کے لوگ گندے پانی، بیماریوں اور بنیادی سہولتوں کی کمی کا سامنا کرنے لگے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہر سال اربوں روپے ریلیف اور امداد کے نام پر مختص ہوتے ہیں لیکن اکثر یہ رقوم بدعنوانی اور بیوروکریسی کی نذر ہو جاتی ہیں۔

ماہرین کی رائے ہے کہ پاکستان کو اب وقتی اقدامات سے نکل کر ایک جامع اور پائیدار حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ فوری طور پر فلڈ ہیزرڈ میپنگ، شہری نکاسیٔ آب کی بحالی اور شفاف ریلیف نظام ناگزیر ہیں۔ درمیانی مدت میں دریاؤں کے لیے “روم فار ریور” پالیسی، بڑے شہروں میں “اسپونج سٹی” منصوبے اور گلیشیائی جھیلوں کے خطرے کو کم کرنے کے پروگرام وقت کی اہم ضرورت ہیں۔

طویل المدتی بنیادوں پر فلڈپلین کی بحالی، ویٹ لینڈز کے تحفظ اور شفاف ڈیزاسٹر فنڈز کا قیام وہ اقدامات ہیں جن سے پاکستان مستقبل میں قرضوں اور انسانی المیوں سے بچ سکتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ اگر آج سنجیدہ اور دیرپا اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں سیلاب صرف قدرتی آفات نہیں بلکہ ایک اجتماعی ناکامی کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اور عوام ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اس چیلنج کا مقابلہ کریں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھیں۔

Comments (0)
Add Comment