سیلابی آفات میں برداشت

تسنیم کوثر

وطن عزیز کو قدرت نے خوبصورت موسموں سے نواز رکھا ہے۔ ہمارا پیارا پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ہےجہاں موسم کے سارے رنگ ملتے ہیں۔ سردی، گرمی،بہار، خزاں اور برسات۔ہر موسم کا اپنا حسن ہوتا ہے مگر انسانیفطرت یکسانیت سے اکتا جاتی ہے اور تبدیلی کی خواہش مند رہتی ہے۔ اسی لیے قدرت نے اس کائنات میں موسموں کےرنگ بھر دیے ہیں۔ یہ رنگا رنگ موسم انسانی ذوق میں تسکین کے رنگ بھر دیتے ہیں۔جب شدید گرمی اور حبس کیوجہ سے انسان کی طبیعت مکدر اور بوجھل ہو جاتی ہے تو ایسے میں برسات کا موسم اسے تازگی بخشتا ہے۔ گہرےسرمئی بادل جب چھا جاتے ہیں تو ساون کی کالی گھٹائیں دن کی روشنی کو شام کے جھٹپٹے میں بدل دیتی ہیں اور جبمون سون ہوائیں ان بادلوں کی چھاگلوں سے ٹکراتی ہیں اور گھن گرج کے ساتھ خوب بارشیں برساتی ہیں تو رم جھمکے جلترنگ بجنے لگتے ہیں۔ کوئل کی کوک، پرندوں کی چہکاریں اور سوندھی مٹی کی مہکاریں دل کی کیفیت بدل کےرکھ دیتی ہیں۔ کہیں ہلکی ہلکی پھوار کہیں تیز موسلا دھار بارش، کہیں رم جھم اور ہیں کِن مِن ،یہ ساری کیفیات موسم کاحسن بڑھاتی ہیں اور ہمیں سرشار کر جاتی ہیں ۔بہ قول شاعر:

آرزو سلگتی ہے ہو کے مس ہواں سے

آگ سی برستی ہے ساونی گھٹاں سے

ساون کے یہ بدلتے ہوئے رنگ ہماری زندگی کے رنگوں میں گھل مل جاتے ہیں اور دل کی کیفیت کو شگفتگی سے ترکر جاتے ہیں۔ ساون کا مہینہ انسانی طبیعت پر نشاط انگیز احساس کو جنم دیتا ہے ۔ساون میں روح کو تازگی ملتی ہے۔ ہرشے پہ نکھار آ جاتا ہے۔ سوکھے درخت ہرے ہو جاتے ہیں۔ پات شجر سب دھل جاتے ہیں۔ یہ موسم انسان کے اندر اورباہر کی کیفیات کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ایک زمانہ تھا جب ساون بھادوں کا موسم اپنی تمام تر

لطافتوں کے ساتھ ہماری زندگیوں میں رنگ بھرتا تھا۔ساون کے آتے ہی گھروں میں پکوان تیار ہونے لگتے تھے۔بڑیبوڑھیاں پوڑے، گلگلے اور پکوڑے بنانے لگتی تھیں۔ درختوں پر جھولے ڈال دیے جاتے تھے اور لڑکیاں بالیاں جھولےجھولتی تھیں اور ساون کے گیت گاتی تھیں جبکہ بیاہی لڑکیاں اپنے مائیکے کے بلاوے کے انتظار میں رہتی تھیں اوراگر پیہر سے آنے والوں کو دیر ہو جاتی تو امیر خسرو کا یہ گیت گایا کرتی تھیں:

اماں میرے بابا کو بھیجو ری کہ ساون آیا

ہمارے وقتوں میں ساون بہت یادگار ہوا کرتا تھا مگر اب جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا گیاتو ہماری قدریں بھی بدلتی گئیں،آسائشیں ہماری زندگی کا حصہ بن گئیں، زندگی مشینی ہو گئی ۔بچے پکوڑوں گلگلوں کی بجائے برگر پیزا کھانے لگے۔حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ زرعی زمینوں نے کالونیوں کی جگہ لے لی، درختوں کو اتنی تیزی سے کاٹا گیا کہ موسمیتبدیلیاں نمودار ہونے لگیں۔یوں وہ ساری پرانی باتیں خواب ہوئیں، ساون کے رنگ ڈھنگ بھی بدل گئے اور ساون رحمتکی بجائے زحمت بننے لگا ۔اپنے ساتھ ہولناک تباہیاں لانے لگا۔ پہلے پانی بپھرتا تھا تو لوگوں کو بے گھر کر جاتا تھامگر اب تو بادل پھٹنے لگے اور گاں کے گاں ہی نیست ونابود کر گئے۔خیبر پختون خواکے مختلف اضلاع میںبارشوں کے کئی سپیل آئے اور قیامت ڈھا گئے۔ سب سے زیادہ الم ناک صورتحال ضلع بونیر کی دیکھی گئی جبکہشانگلہ، مانسہرہ،ہری پور،مہمند، باجوڑ، سوات، لوئر دیر اور بٹگرام میں بھی تباہی کے ریکارڈ ٹوٹ

گئے۔گلگت بلتستان اور خیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں میں شدید طوفانی بارشوں، آسمانی بجلی کے گرنے اورپہاڑی ندی نالوں میں طغیانی آنے کی وجہ سے وہاں کے مقامی باشندوں کو ایک ہول ناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ۔رہی سہی کسر کلاڈ برسٹ نے پوری کر دی اور ان سے ہو نے والی تباہی نے ملک بھر سے ان علاقوں کا رابطہمنقطع کر دیا۔ گلیشیئر پھٹے اور انسانی بستیاں کاغذ کی کشتیوں کی طرح بہا کر لے گئے۔ بہت سے گاں تو صفحہ ہستیسے مٹ گئے۔مقامی مکینوں کے اس نقصان کا ازالہ تو ممکن نہیں کہ طوفانی بارشوں نے ان کی زندگیاں، گھر بار اورسب سازو سامان اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ شدید بارشوں اور کلاڈ برسٹ ہونے کی وجہ سے گاں کے گاں تباہ ہوگئے ہیں، کچے مکان طوفانی ریلوں میں بتاشوں کی طرح گھل گئے ہیں۔ معمولات زندگی معطل ہو کر رہ گئے ہیں ۔لاکھوں جانیں ضائع ہو گئی ہیں۔بہت سے سیاح اپنی زندگیاں ہار بیٹھے ہیں ۔سڑکیں اور پل پانی میں بہہ گئے ہیں۔ بادلپھٹنے اور آسمانی بجلی گرنے سے ان گنت جانوں کا نقصان ہوا ہے۔ فصلیں، باغات، مکانات سب کچھ پانی کے غیض وغضب کی نذر ہو گیا ہے ۔دریا کے کنارے بنائے گئے بہت سے ہوٹل بھی اس طوفانی ریلے کا سامنا نہیں کر سکے اورزمین بوس ہو گئے ہیں۔ گھر ٹوٹ ٹوٹ کر بہہ رہے ہیں۔گاڑیاں بپھرے ہوئے پانی میں قلا بازیاں کھاتی نظر آ رہی ہیں۔بہت سے مقامی اور سیاح لاپتہ ہیں ۔مقامی باشندے پناہ کی تلاش میں ہیں۔ ریسکیو اہلکار،فوجی جوان اور مختلفتنظیموں کے نمائندے ریسکیو آپریشن میں مصروف ہیں اور مدد کے منتظر لوگوں کو بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر یہ دل دہلا دینے والے مناظر سب کو افسردہ کئے ہوئے ہیں۔ حب الوطنی سے سرشار ہماری قوم اسمشکل گھڑی میں خیبر پختون خوا کے ساتھ کھڑی ہے۔ مختلف ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی ان کی مدد کےلیے کوشاں ہیں۔شہری امدادی سامان جمع کرنے کی حتی الامکان کوششیں کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک تنظیمبرداشتہے جو محترمہ نیلوفر بختیار کی سربراہی میں گزشتہ اٹھارہ سال سے فلاحی کام کر رہی ہے۔ نیلوفر بختیار سابق وفاقیوزیر رہی ہیں۔وہ خواتین کی سماجی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے ہمیشہ سرگرم عمل رہی ہیں۔ انہوں نے صحت اورتعلیم کے شعبوں میں بھی بہت کام کیا ہے۔ وہ قومی کمیشن برائے وقار نسواں کی چیئر پرسن ہیں۔وہ برداشت کی بھیچیئر پرسن ہیں۔انہوں نے اس تنظیم کی بنیاد معاشرے میں عدم برداشت کی وجہ سے مخدوش حالات کو دیکھتے ہوئےرکھی تھی ۔برداشت اور اس کے ممبران دکھ کی ہر گھڑی میں قوم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ۔برداشت ان دنوں بھی سرگرم عمل ہے اور سیلاب زدگان کے ساتھ کھڑی ہے ۔پختون خوا کی صورتحال سے نمٹنے اور پنجاب کے بہت سےعلاقے زیر آب آنے کے حوالے سے برداشت کے بورڈ آف گورنز کے چیئر پرسن عبدالوحید چغتائی کی رہائش گاہ پرگزشتہ روز فنڈ ریزنگ کے لیے ایک ہنگامی اجلاس ہوا جس میں چھ لاکھ سے زائد رقم جمع کی گئی جس میں سےآدھی رقم برداشت ہیڈ آفس میں خیبر پختون خوا کے متاثرہ علاقوں تک امدادی اشیاءپہنچانے کے لیے دے دی گئی اورباقی رقم پنجاب زون میں سیلاب متاثرین کے لیے رکھی گئی اور اشیائے ضرورت متاثرہ علاقوں تک پہنچانے کا لائحہعمل تیار کیا گیا۔ فنڈ ریزنگ کے اس اجلاس میں برداشت کے عہدیداران میں پاسٹ پریزیڈنٹ برداشت چیئر پرسنہیومنٹیرین محترمہ آمنہ الفت، حالیہ پریذیڈنٹ برداشت شفیق الرفیق،وائس پریذیڈنٹ حجاب، پاسٹ پریزیڈنٹ ناصر احمدشیخ،ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ عبداللہ ملک،ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ تسنیم کوثر،محترمہ نازش اور فرخ آصف صدیقی نےشرکت کی۔ چیف گیٹس شیخوپورہ سے برداشت کی پریزیڈنٹ نجم السحر اور محترمہ نادرہ وٹو صاحبہ تھیں۔شیخوپورہکے کچھ ممبران ساتھیوں کے علاوہ دیگر سوشل ورکرز نے بھی اجلاس میں شرکت کی اور اس کار خیر میں اپنا حصہڈالا۔ آخر میں بورڈ آف گورنز کے چیئر پرسن محترم عبد الوحید چغتائی نے تمام شرکاءکا شکریہ ادا کیا اور وطن عزیزکے لیے اس دعائے خیر کے ساتھ اجلاس اختتام کو پہنچا کہ اللہ رب العزت ہمارے ملک کو آفاتِ آسمانی اور بلائےناگہانی سے بچائے۔ آمین۔

Comments (0)
Add Comment