سو لفظوں کی کہانی *سیلاب*

شاہد کاظمی

پورا گاؤں زیرآب آ چکا تھا،
ہر کوئی پریشانی میں ادھر سے ادھر بھاگ رہا تھا،
لیکن دو سو ایک عجیب طرح کے اطمینان سے،
کونے میں کھڑا ہوا تھا،
اور مسلسل مسکرائے جا رہا تھا۔۔۔
سیلاب تباہی مچا رہا ہے،
تم ہنس رہے ہو،
میں نے قدرے غصے سے کہا۔۔۔
دوسو بولا،،،
ہر سال کم پانی آتا تھا،
ہماری فصلیں تباہ، چوہدری بند باندھ دیتا تھا، فصلیں بچا لیتا تھا،
غریبوں پہ ہنستا تھا،
اس مرتبہ پانی بے حساب آیا،
چوہدری کا بند بھی بہا لے گیا،
ہنس اس لیے رہا کہ،
چوہدری قدرت کے اگے بند نہ باندھ سکا۔

Comments (0)
Add Comment