میرٹ کی تلاش

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

قوموں کی ترقی کے لیے اعزازات محض ایک علامتی تقریب یا چند تمغوں کی تقسیم کا نام نہیں، بلکہ یہ اس سوچ کا مظہر ہوتے ہیں کہ معاشرہ کن اقدار کو اہمیت دیتا ہے اور کن خدمات کو مثال بناتا ہے۔ جب کوئی شخص یا ادارہ اپنی غیر معمولی خدمات کے ذریعے قوم کا فخر بنتا ہے تو یہ اعزاز اس کی محنت کا اعتراف اور آنے والی نسلوں کے لیے ترغیب بن جاتا ہے۔ لیکن جب یہ اعزازات میرٹ سے ہٹ کر تقسیم ہوں تو نہ صرف ان کی معنویت کم ہو جاتی ہے بلکہ معاشرتی اقدار بھی متزلزل ہو جاتی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں آج اعزازات کے حوالے سے جس طرح کی صورتحال ہے وہ باعثِ تشویش ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ نہ دینے والوں کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کسی غیر اہل کو نواز کر قومی اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں اور نہ لینے والوں کو یہ احساس کہ وہ غلط جگہ کھڑے ہیں۔ اس سے بڑھ کر افسوسناک امر یہ ہے کہ لوگ اپنی سوانح عمری خود لکھ کر سوشل میڈیا پر شائع کرتے ہیں اپنی خدمات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور پھر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں یہ اعزاز ملنا ان کا حق ہے۔ نتیجہ یہ کہ لوگ خوشامد کے جذبے میں ان کے نام پھیلانے لگتے ہیں اور میرٹ مزید پس منظر میں چلا جاتا ہے۔

اعزازات کی تقسیم کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ معاشرے کو دکھایا جائے کہ کس جدوجہد کو سراہا جاتا ہے اور کون سی خدمات آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ لیکن جب سیاسی تعلقات، ذاتی وابستگیاں یا ادارہ جاتی مفادات فیصلہ کن کردار ادا کریں تو اعزاز اپنی اصل وقعت کھو دیتا ہے۔ معاشرے کے باصلاحیت اور محنتی لوگ مایوسی کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ انہیں یہ پیغام ملتا ہے کہ کامیابی کا راستہ محنت سے نہیں بلکہ تعلقات اور خوشامد سے گزرتا ہے۔

اعزازات کو باوقار بنانے کے لیے سب سے پہلے شفاف اور غیر جانبدار نظام قائم کرنا ہوگا۔ ایک ایسی سرچ کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے جو خفیہ طور پر افراد یا اداروں کی خدمات کا جائزہ لے۔ یہ کمیٹی سفارشی خطوط یا ذاتی تعلقات کے بجائے مستند ریکارڈ، حقیقی کامیابیوں اور معاشرتی اثرات کو مدنظر رکھے۔ ساتھ ہی ساتھ ایک واضح تحریری معیار بھی طے کیا جائے تاکہ سب کو معلوم ہو کہ کن بنیادوں پر اعزاز دیا جائے گا۔

اس عمل کو مزید باوقار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس پر کسی قسم کا عوامی دباؤ نہ ہو۔ جب سوشل میڈیا پر کسی کے حق میں مہم چلائی جاتی ہے، تصویریں لگائی جاتی ہیں یا پوسٹس کے ذریعے ماحول بنایا جاتا ہے تو فیصلہ کرنے والوں پر نفسیاتی دباؤ بڑھتا ہے۔ اس سے نہ صرف میرٹ مجروح ہوتا ہے بلکہ اعزاز کے وقار پر بھی سوال اٹھتا ہے۔

ہمارے ہاں ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ بیوروکریسی اور سیاسی طبقہ اکثر اعزازات کے فیصلوں میں مداخلت کرتا ہے۔ ایسے افراد کے نام سامنے آتے ہیں جنہوں نے کسی شعبے میں بڑی خدمت تو دور کی بات، اپنے پیشے میں بنیادی معیار بھی قائم نہیں رکھا۔ دوسری طرف وہ لوگ جو عملی میدان میں خاموشی سے غیر معمولی کام کر رہے ہیں، گمنامی کے اندھیروں میں رہتے ہیں۔ یہ ناانصافی صرف چند افراد کو محروم نہیں کرتی بلکہ پورے معاشرے کو ایک غلط پیغام دیتی ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ قومی اعزازات اپنی کھوئی ہوئی ساکھ دوبارہ حاصل کریں تو ہمیں اپنے رویے بدلنے ہوں گے۔ سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اعزاز لینا ایک بڑی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ جو شخص اپنی خدمات کے بغیر یہ اعزاز لے رہا ہے، وہ نہ صرف اپنی ذات کو دھوکہ دے رہا ہے بلکہ قوم کے اعتماد کو بھی مجروح کر رہا ہے۔ اسی طرح دینے والوں پر بھی لازم ہے کہ وہ میرٹ کو فوقیت دیں اور کسی سیاسی یا ذاتی دباؤ کے آگے نہ جھکیں۔

یہ بھی ضروری ہے کہ اس پورے عمل کو مکمل طور پر خفیہ رکھا جائے۔ جب تک سفارشات فائنل نہ ہوں، کسی کو یہ پتہ نہ چل سکے کہ کن افراد کے نام زیرِ غور ہیں۔ اس سے سیاسی دباؤ اور سوشل میڈیا کی مہمات کا امکان ختم ہو جائے گا۔ اعزاز ملنے کے بعد بھی اگر یہ سوال پیدا ہو کہ کیا واقعی یہ فیصلہ میرٹ پر ہوا ہے تو کمیٹی کی رپورٹ اور معیار عوام کے سامنے لایا جا سکتا ہے۔

اعزازات کا معیار صرف پیشہ ورانہ کامیابی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اخلاقی اقدار بھی اس کا حصہ ہونی چاہئیں۔ ایسا شخص جو مالی بدعنوانی یا کسی اور اخلاقی کمزوری میں ملوث ہو چاہے اس نے اپنے شعبے میں کتنی ہی کامیابی کیوں نہ حاصل کی ہو، اعزاز کا حقدار نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ قومی اعزاز نہ صرف پیشہ ورانہ برتری کا اعتراف ہے بلکہ اخلاقی مثال بھی ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اعزازات کے نظام کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ وہاں کسی کے بارے میں ذرا سا بھی شک ہو تو اس کا نام فہرست سے نکال دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات وہ اعزاز واپس بھی لے لیا جاتا ہے جو غلط بنیادوں پر دیا گیا ہو۔ ہمیں بھی اسی طرح کا سخت اور شفاف نظام اپنانا ہوگا تاکہ اعزاز صرف اور صرف انہی کو ملے جو واقعی اس کے حقدار ہیں۔

قوموں کی عزت ان کے فیصلوں سے پہچانی جاتی ہے۔ جب اعزازات صرف اہل لوگوں کو ملیں گے تو نئی نسل کو بھی یہی پیغام ملے گا کہ کامیابی کا راستہ محنت، خدمت اور ایمانداری سے گزرتا ہے نہ کہ تعلقات اور دکھاوے سے۔ بصورتِ دیگر یہ اعزازات محض دھندلا گئے تمغے بن جائیں گے جن پر کوئی فخر نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کی کوئی تاریخی اہمیت باقی رہے گی۔

Comments (0)
Add Comment