کہتے ہیں کہ جب کسی بڑی خوشی کے اظہار کے لیے انسان کے پاس الفاظ کم پڑ جاتے ہیں تو وہ پھولوں کا سہارا لیتا ہے اور اپنے خوشی کے جذبات پھولوں کے ذریعے نچھاور کرتا ہے ۔یہی ہمارے علاقے میں اس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب پورے سال اڑتی ریت کے دریا میں اچانک پانی آجاۓ تو لوگ خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں اور والہانہ جھومتے ہوۓ دریا کا رخ کرتے ہیں ۔پیاسوں کے لیے پانی سے بڑی خوشخبری اور کیا ہو سکتی ہے ؟ وہ اپنے خوبصورت الفاظ اور گیتوں کے ساتھ ساتھ پھولوں کی پتیوں سے اس پانی کا استقبال کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔پانی میں دور دور تک بہتی پھولوں کی پتیاں اور گونجتے نغمے ان کی محرومیوں اور پیاس کی داستان بیان کر رہی ہوتی ہے کیونکہ پانی کو زندگی اور آبادی کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔پاکستان کے کسان اور دریائی کناروں پر آباد لوگ اب بھی پانی کو سب سے بڑی نعمت تصور کرتے ہیں ۔ستلج میں پانی آنے سے کھیتوں کھلیانوں کی پیاس بھی بجھتی ہے اور یہ پانی آئندہ فصلوں کے لیے زرخیز مٹی بھی ساتھ لاتا ہے اور زیر زمین پانی کی سطح بھی اوپر آجاتی ہے جس سے ماحول میں تازگی اور فرحت محسوس ہوتی ہے اور پینے کا میٹھا پانی بھی میسر آتا ہے ۔پرندے ،مچھلیاں اور آبی حیات کو تو گویا نئی زندگی مل جاتی ہے ۔دریا کنارے آباد لوگوں کے لیے یہ منظر کسی دلفریب خواب سے کم نہیں ہوتا جب برسوں سے خشک دریا کا پانی ان کے قریب سے گزر رہا ہو ۔کہتے ہیں کہ دریا تو زمین کی روح کی مانند ہوتے ہیں ۔جہاں دریا دریا بہتے ہیں وہاں زندگی تروتازہ رہتی ہے کھیت لہلہانے لگتے ہیں اور صرف انسان کو ہی نہیں بلکہ چرند وپرند کو بھی سکون ملتا ہے اور اگر یہ دریا سوکھے ہوں تو زمین کی رنگینیاں اور خوبصورتیاں بھی ماند پڑ جاتی ہیں ۔زمین ویران ویران اور جاندار اجڑے اجڑے بے رونق سے لگتے ہیں ۔
یہ دریا محض پانی کا بہاو یا لہروں کا رقص ہی نہیں ہوتے ۔یہ تہذیبوں کے گہوارے اور انسانی زندگی کے ضامن ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ بےشمار آبی زندگی لاتے ہیں ۔برصغیر کی تاریخ میں دریاۓ ستلج کا نام ایک ایسے قدیم دریا کے طور پر لیا جاتا ہے جو کبھی زندگی کا سرچشمہ ہوا کرتا تھا مگر وقت کے ظالم ہاتھوں نے اسے بےآب ویاب کردیا ۔اس کے کنارے کنارے بے شمار بستیوں نے جنم لیا اور کئی ثقافتیں پروان چڑھیں ۔برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ دریا پاکستان کے حصے میں آیا تو ضرور مگر سندھ طاس معاہدے کی باعث سوکھتے سوکھتے محض ماضی کی خوبصورت یاد بن کر رہ گیا اور اس دریائی موت نے جغرافیہ،زراعت اور جنگلی و آبی حیات سب کو نگل لیا ۔ برسوں بعد جب اس سوکھے ستلج میں پانی آجاتا ہے تو لوگوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے ۔وہ پھولوں ، علاقائی گیتوں اور جھومر سے اس کا استقبال کرتے ہیں ۔کشتیاں چلنے لگتی ہیں لوگ جوق درجوق دریاۓ کی لہروں شور اور پانی کی موسیقی اور گنگناہٹ سے لطف اندوز ہونے پہنچتے ہیں ۔وہ اس دریا کے پانی کو اللہ کی خاص نعمت سے تعبیر کرتے ہیں ۔مقامی آبادی کے دلوں میں پرانے وقتوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔ابھی اس میں بہنے والے پھولوں کی خوشبو بھی ماند تک نہیں پڑتی کہ دریا کے اس پانی کو نظر لگ جاتی ہے اور پانی آنے کی خوشخبری سیلاب اور تباہی کی پریشانی میں بدل جاتی ہے ۔یہ سیلاب بھارت کی طرف سے ڈیموں سے فالتو پانی جان بوجھ کر چھوڑا جاتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب بارشوں اور سیلابی ریلوں کا دباو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ایسی صورتحال میں دریا ستلج میں پانی آنے کی خوشخبری یکا یک ایک المیے اور پریشانی کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ستلج میں پانی آنے کی خوشخبری کے ساتھ ہی اس خوف کے بادل بھی گھیر لیتے ہیں کہ اب سیلاب کی تباہ کاری کا سامنا بھی کرنا پڑے گا کیونکہ ہمارا دشمن مکار اور آبی جارحیت کا عادی ہے ۔یوں فصلوں کی بربادی اور گھروں کی غرقابی کا خوف پانی آنے کی ساری خوشیوں پر حاوی ہو جاتا ہے ۔پاکستان کی جانب دھکیلے جانے والا یہ پانی پورے بسے بساے انسانی معاشرہ کو اجاڑ دیتا ہے ۔لوگوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کر دیتا ہے ۔یہی پانی اگر وقت پر اور معاہدوں کے مطابق اور منصوبہ بندی کے تحت آتا تو کھیت کھلیان سیراب ،کسان خوشحال ،اور دریا کے کنارے آباد ہو جاتے ۔مگر یہ پانی ہمارے لیے اپنی مرضی کا نہیں ہوتا بلکہ ایک “بے ا ختیار سی دولت ” بن کر آتا ہے جو جتنا خوشی دیتا ہے اتنا ہی نقصان بھی کر جاتا ہے ۔دریا ستلج کا پانی ہمیشہ یہ خاموش پیغام دیتا ہے کہ فطرت آج بھی فیاض ہے دریا اپنی رمق اور ولولہ باقی رکھے ہوۓ ہے ۔یہ دریا اپنے راستے نہیں بھولتا اور جب اسے موقع ملتا ہے اپنے راستے پر رواں دواں ہو جاتا ہے ۔دوسرا دریا کا یہ پانی ہمیں احساس دلاتا ہے کہ اگر ہم نے منصوبہ بندی نہ کی تو اس کی یہ فیاضی تباہی میں بدل جاۓ گی ۔یہ بوڑھا اور بزرگ دریا ہمیں سبق دے رہا ہے کہ قدرت کی نعمت کو ضائع کرنا اسے قابو نہ کرنا اور دوسروں کے رحم وکرم چھوڑنا ہماری خوشخبری کو المیے میں بدلنے کے مترادف ہے ۔
ہم پیاس کے مارے ہوۓ لوگوں کو یہ دکھ ہے
پانی بھی ہمیں ملتا ہے سیلاب کی صورت
ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے خود اپنی کوہتایوں سے دریاوں کی برکت کو زحمت بنا دیا ہے ۔ایک جانب تو ہم دریائی گزرگاہوں پر گھر بنا لیتے ہیں اور فصلیں کاشت کردیتے ہیں اور دوسری جانب حکومتی ہدایات کے باوجود وہاں سے نقل مکانی نہیں کرتے اور آخری وقت تک پانی کے پہنچنے کے منتظر رہتے ہیں ۔اگر حکومتی ریڈ الرٹ پر توجہ دیں تو نقصان کم سے کم ہو سکتا ہے ۔دوسرے حکومتی سطح پر ہم نہ تو کوئی ڈیم بنا سکے اور نہ ہی جھیلیں اور پانی کے ذخائر بنا پاۓ جہاں پانی کو ذخیرہ کیا جاسکے ۔ہمارے پاس وقت پر پانی سنبھالنے کی صلاحیت کا فقدان ہے ۔جب پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو زمین پیاسی رہتی ہے اور جب زیادہ مقدار میں پانی آتا ہے تو بستیاں بہا لے جاتا ہے ۔دریا ستلج کا پانی قدرت کی خوشخبری بھی ہے اور ہماری کوہتایوں کا المیہ بھی ہے ۔ستلج کی لہریں ایک مرتبہ پھر بپھری ہوئی ہیں ۔دشمن ملک بھارت نے گنڈا سنگھ کے مقام سے لاکھوں کیوسک پانی چھوڑ دیا ہے ۔دریاے ستلج کے کنارے کنارےآبادیوں کو سیلاب کے ریڈ الرٹ جاری ہو چکے ہیں ۔پورے بہاولپور کے علاقے کو سیلاب سے خطرات لاحق ہیں ۔بروقت حفاظتی انتظامات کئے جارہے ہیں کیونکہ سیلاب ہماری کمزور معیشت اور انسانی جانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے اس لیے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے بچاو کے ہر ممکن اقدامات کئے جانے چاہییں ۔دریاے ستلج ایک مرتبہ پھر پیغام دے رہا ہے کہ ہم سمجھیں کہ وقت کا تقاضہ یہی ہےکہ دریاکے ساتھ ساتھ فوری طور پر پانی ذخیرہ کرنے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کئے جائیں کیونکہ یہ کسی ایک ایک خطے یا علاقے کا مسئلہ نہیں ہے پورے ملک کے ماحولیاتی اور معاشی استحکام کا معاملہ ہے ۔ بڑے عرصے سے یہ سننے میں آرہا ہے کہ بہاولپور میں ستلج کنارے ایک جھیل کی تجویذ دی گئی ہے جو پانی ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین تفریخی مقام بھی ہوگی ۔اگر ایسا ہوا تو یقینا”یہ بہت بڑا عمدہ فیصلہ ہو سکتا ہے ۔اللہ سے دعا ہے کہ رب کریم اس سیلابی ریلے سے بہاولپور اور اس کے عوام کی حفاظت فرماۓ اور دریا ستلج کے اس پانی کو اپنی رحمت اور نعمت بناۓ ۔آمین !