مودی ہٹلر کے نقش قدم پر

(تحریر: عبدالباسط علوی)

ایڈولف ہٹلر، جس نے 1933 سے 1945 تک نازی پارٹی کے رہنما اور جرمنی کے چانسلر کے طور پر خدمات سر انجام دیں، کو عالمی سطح پر تاریخ کی سب سے ظالم شخصیات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بدنام زمانہ حکومت آہنی آمرانہ گرفت، وسیع پیمانے پر منظم تشدد، نسل کشی کے لیے ایک بے رحم اور جنونی جستجو اور ایک مکمل مطلق العنان کنٹرول سے عبارت تھی۔ اس کی براہ راست قیادت میں کیے گئے خوفناک اقدامات جنگ کے حادثاتی نتائج یا محض حکومتی غلطیاں نہیں تھے بلکہ یہ ایک زہریلے نظریے کا سوچا سمجھا اور دانستہ عمل درآمد تھا جو انتہائی نسل پرستی، شدید سام دشمنی اور آریائی برتری کے ایک غیر متزلزل لیکن سراسر جھوٹے عقیدے میں گہرائی سے جڑا ہوا تھا۔ اس تباہ کن نظریے کو بڑی مہارت سے پروان چڑھایا گیا اور پھیلایا گیا جس نے بے مثال انسانی مصائب کی بنیاد رکھی۔

ہٹلر کی سب سے دیرپا اور ہولناک وراثتوں میں سے ایک نسل کشی ہے، جو ایک مکمل منصوبہ بند، ریاستی سرپرستی میں اور وسیع پیمانے پر نسل کشی تھی جس نے منظم طریقے سے اندازاً چھ ملین یہودیوں کے قتل کا اہتمام کیا۔ یہ ظلم و تشدد اچانک نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے کئی سالوں تک بڑھتی ہوئی سام دشمنی پر مبنی تقریریں اور امتیازی پالیسیاں احتیاط سے تیار کی گئی تھیں تاکہ یہودیوں کو ان کے حقوق سے بتدریج محروم کیا جا سکے اور انہیں جرمن معاشرے سے منظم طریقے سے الگ تھلگ کیا جا سکے۔ اس تدریجی غیر انسانیت پسندی کی ایک واضح مثال 1935 کے نیورمبرگ قوانین کا نفاذ تھا۔ ان قوانین نے ایک بنیادی قانونی ڈھانچے کے طور پر کام کیا، یہودیوں کو ان کی جرمن شہریت سے محروم کر دیا اور یہودیوں اور “آریائی” سمجھے جانے والے افراد کے درمیان شادیوں یا جنسی تعلقات کو واضح طور پر ممنوع قرار دیا۔ اس کے بعد یہودی افراد کو بتدریج اور بے رحمی سے اسکولوں، پیشوں اور عوامی زندگی سے ہٹایا گیا جبکہ ان کے کاروباروں کا بائیکاٹ کیا گیا یا انہیں زبردستی ضبط کر لیا گیا جس سے ان کی روزی روٹی مفلوج ہو گئی۔ 1930 کی دہائی کے آخر تک یہودیوں کے خلاف تشدد پریشان کن حد تک معمول بن گیا تھا اور حتیٰ کہ عوامی سطح پر بھی منظور شدہ ہو گیا تھا، جس کا اختتام نومبر 1938 میں کرسٹال ناخٹ یا “ٹوٹے ہوئے شیشے کی رات” کے خوفناک واقعات پر ہوا۔ اس ریاستی سرپرستی میں ہونے والی قتل و غارت گری میں ہزاروں یہودی کاروبار، گھر اور عبادت گاہیں دہشت گردی کی لہر میں تباہ ہو گئیں اور 30,000 سے زائد یہودی مردوں کو گرفتار کیا گیا اور بعد میں حراستی کیمپوں میں بھیج دیا گیاجو ظلم و ستم میں ایک بڑا اضافہ تھا۔ 1939 میں دوسری جنگ عظیم کے آغاز کے ساتھ ہٹلر کی نسل کشی کی خواہشات جرمنی کی سرحدوں سے باہر ڈرامائی طور پر پھیل گئیں۔ پورے یورپ سے یہودیوں کو اکٹھا کیا گیا، زبردستی جلاوطن کیا گیا اور گنجان آباد یہودی بستیوں میں خوفناک اور غیر انسانی حالات میں قید کر دیا گیا جہاں فاقہ کشی اور بیماریاں عام تھیں۔ بالآخر، نازی حکومت نے “فائنل سلوشن” کو نافذ کیا جو پوری یہودی آبادی کے منظم خاتمے کے لیے ایک ہولناک منصوبہ بندی تھی۔ اس خوفناک منصوبے میں آشوٹز، ٹریبلنکا، سوبیبور اور بیلزیچ جیسے خصوصی خاتمے کے کیمپوں کی تیزی سے تعمیر شامل تھی، جو صرف بڑے پیمانے پر قتل کے لیے بنائے گئے تھے۔ متاثرین کو مویشیوں کی گاڑیوں میں لاد کر ان مقامات پر منتقل کیا جاتا تھا اور پھر گیس چیمبرز میں بڑے پیمانے پر قتل کیا جاتا تھا اور ان کی لاشوں کو بعد میں بڑے شمشان گھاٹوں میں جلایا جاتا تھا۔ جو لوگ وہاں پر ہلاک نہیں ہوئے تھے انہیں وحشیانہ جبری مشقت، اذیت ناک طبی تجربات، فاقہ کشی اور شدید مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا اور مرتے دم تک اذیتیں دی گئیں۔

بھارت کی بات کریں تو جب سے نریندر مودی اقتدار میں آئے ہیں، پہلے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر اور بعد میں 2014 میں ہندوستان کے وزیر اعظم کے طور پر، ان کا دور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بڑھتے ہوئے الزامات کے سائے میں رہا ہے، خاص طور پر مذہبی اقلیتوں اور مقبوضہ کشمیر کی آبادی کو نشانہ بناتے ہوئے. ناقدین، جن میں قابل اعتماد بین الاقوامی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شامل ہیں، نے ان پر الزام لگایا ہے کہ وہ یا تو فعال طور پر ایسی پالیسیوں اور اقدامات کو فروغ دے رہے ہیں یا خاموشی سے برداشت کر رہے ہیں جو کمزور برادریوں کو منظم طریقے سے پسماندہ کرتی ہیں اور ہندوستان کے اندر قائم جمہوری اداروں کو بتدریج کمزور کرتی ہیں.

ہندوستان کے پیچیدہ وفاقی ڈھانچے کے اندر، آرٹیکل 370 کی متنازعہ منسوخی اور اس کے بعد اگست 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی تنظیم نو ایک انتہائی اہم اور وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بننے والا موڑ تھا۔ ان اقدامات کے بعد حکومت نے ایک وسیع مواصلاتی بلیک آؤٹ نافذ کیا، جس میں انٹرنیٹ سروسز، فون لائنز اور ٹیلی ویژن نشریات کو مؤثر طریقے سے جام کر دیا گیا، اور پورے خطے میں سخت کرفیو نافذ کیا، جس سے آبادی کو الگ تھلگ کر دیا گیا۔ تقریباً 4,000 سیاسی شخصیات، جن میں سابق وزرائے اعلیٰ، مقامی سیاست دان اور صحافی شامل تھے، کو غیر قانونی سرگرمیوں کے (روک تھام) ایکٹ (UAPA) اور جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے سخت حفاظتی قوانین کے تحت بڑے پیمانے پر حراست میں لیا گیا، جس سے سیاسی اختلاف کو شدید طور پر محدود کر دیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے مظاہروں کو دبانے کے لیے پیلٹ گنوں کے وسیع پیمانے پر استعمال کی بڑے پیمانے پر اطلاع دی ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کو معذور یا نابینا کر دیا گیا ہے، جن میں سے بہت سے مستقل معذوری کا شکار ہو گئے ہیں۔ مزید برآں، تشدد، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، رات کے اوقات میں چھاپوں اور خفیہ گرفتاریوں کے بے شمار دستاویزی کیسز کی اطلاع دی گئی ہے، جن میں سے کئی متاثرین افسوسناک طور پر کبھی دوبارہ سامنے نہیں

Comments (0)
Add Comment