احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
میں شوگر بلڈ پریشر اور دل کا مریض ہوں مجھے ان امراض کے لیے مخصوص ادویات درکارہوتی ہیں میں ہمیشہ پورے ماہ کی ادویات اکھٹی حرید لاتا ہوں تاکہ باربار دوائی نہ خریدنی پڑے لیکن ستم یہ ہے کہ ان ادویات میں سے کئی ادویات فارمیسی پر دستیاب نہیں ہوتیں اور مجبورا” اسی سالٹ کی دوسری متبادل دوائی کا سہار ا لینا پڑتا ہے اور بہاولپور میں بعض اواقات تو دوسرے سالٹ کی ادویات بھی نہیں ملتی تو پریشانی بڑھ جاتی ہے ۔شوگر کے لیے مخصوص انسولین پچھلے کئی ماہ سے باقاعدگی سے نہیں مل پارہی اس لیے شہر کے کئی اسٹورز سے گھوم پھر کر بامشکل ایک یا دو وائل ڈھونڈ لایا تھامگر اس مرتبہ پھر یہ انسولین نایاب ہے کہتے ہیں وائل نہیں ہے پین فل لے جاو تاکہ اس کے لیے پین بھی خریدنا پڑ تا ہے جو یقینا” بہت مہنگا پڑتا ہے ۔ایک فارمیسی پر انسولین کی تلاش میں گیا تو وہاں ایک بوڑھی عورت اپنی میں مٹھی میں پیسے اور نسخہ دباۓ باربا ر انسولین کے لیے منت کررہی تھی مگرفارمیسی والا کہہ رہا تھا کہ جب متعلقہ انسولین ہے ہی نہیں اور آہی نہیں رہی تو کہاں سے دے دوں ؟ پورے بازار میں شارٹ ہے چند دن بعد پتہ کرلیں اگر آگئی تو دے دوں گا ۔میں اس بڑھیا کی مجبوری اسکی آنکھوں سے پڑھ رہا تھا ۔میں نے بوڑھی عورت سے کہا کہ ہسپتال سے پتہ کرلے تو اس نے تقریبا” روتے ہوے بتایا کہ وہاں سے تو کئی ماہ سے نہیں مل رہی تب ہی تو خریدنے آئی ہوں ۔ بازار میں ہر چیز بکتی ہے لیکن جب زندگی کا یہ انجکشن بلیک میں بھی نہ ملے تو سوال معاشی نہیں رہتا وہ اخلاقی ،انسانی اورقومی سوال بن جاتا ہے ۔میں جس فارمیسی پر بھی جاتا ایک ہی جواب ملتا ” یہ والی انسولیں نہیں ہے اس کی بجاے یہ لے جائیں ” یہ بھی ویسا ہی اثر کرتی ہے ۔میں سوچ رہا تھاکہ ہمارا نظام صحت کس نہج پر آچکا ہے جہاں مریض کے ہاتھ میں نسخہ رہ گیا ہے اور فارمیسی والے کے پاس صرف بہانے ہیں ۔ ؟انسولین کی کمی ہسپتال تک محدود نہیں رہی بازار بھی خالی ہوچکے ہیں یا منافع خوروں کی آماجگاہ بن چکے ہیں ۔ یوں تو ادویات کی قیمتیں پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں مگر انسولین کے ساتھ معاملہ صرف مہنگائی کا نہیں یہ دستیابی ،شفافیت اور انسانیت کا بحران ہے ۔کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق روزآنہ کی بنیاد پر لاکھوں مریض انسولین پر انحصار کرتے ہیں ۔جن کے لیے انسولین کی ایک دن کی تاخیر بھی خطرناک ہو سکتی ہے ۔ مگر جب مارکیٹ میں دستیاب انسولین خراب یا ذخیرہ اندوزی کی باعث دگنے داموں بکے تو یہ صرف منافع خوری نہیں یہ تو قتل غیر ارادی ہو سکتا ہے۔انسو لین کی قیمت غریب کی پہنچ سے دور جاچکی ہے ۔دوسری جانب انسولین کی باربار عدم دستیابی اور بےیقینی کے پیش نظر انفرادی ذخیرہ اندوزی بڑھ رہی ہے ۔ادویات کے شعبے سے متعلقہ لوگوں کی راۓ ہے کہ ہسپتالوں میں انسولین کی عدم دستیابی کی باعث مقامی مارکیٹ میں انسولین کی طلب میں اضافہ اور رسد میں کمی کی وجہ سے عدم دستیابی ہوتی ہے ۔کیونکہ تمام تر انسولین باہر سے مخصوص مقدار میں امپورٹ کی جاتی ہے ۔
کہتے ہیں کہ بیماری صرف جسم پر حملہ نہیں کرتی یہ انسان کے وقار ،اس کے گھر اور اس کی امیدوں پر بھی وار کرتی ہے ۔مگر جب بیماری کا علاج دستیاب نہ ہو توپھر درد صرف ذاتی نہیں رہتا وہ قومی اور اجتماعی بن جاتا ہے اور جب معاملہ لائف سیونگ ادویات سےمتعلق ہو تو زندگی داؤ پر لگانا پریشان کن ہوتا ہے اور ایک عجیب سی گھبراہٹ اور پریشانی ہونے لگتی ہے ۔ گذشتہ روز بہاولپور کے مریضوں نے وکٹوریہ ہسپتال سے انسولین کی عدم دستیابی پر احتجاج کیا اور حکومت پنجاب سے فوری دستیابی کی اپیل کی ان کا کہنا تھا کہ دوا کی عدم دستیابی کی باعث مریضوں کو بار بار ہسپتال کے چکر لگانا پڑتے ہیں ۔ہسپتال میں انسولین کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنایا جاۓ ۔انسولین کے مریض صرف دعا پر زندہ نہیں رہ سکتے ۔میری بہن جو ہسپتال سے انسولین اور ادویات لیتی ہے اس نے بتایا کہ ہسپتال میں انسولین کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے ۔جس کی باعث ذیابیطس کے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بار بار انسولین کا برانڈ بدلنے سے بھی صحت کے مسائل بڑھتے ہیں ۔دوسر ے دیگر ادویات کی طرح میڈیکل سٹور پر انسولین کی قیمتیں بھی اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ ایک عام آدمی کی بساط سے باہر ہو چکی ہیں ۔
ذرا تصور کریں کہ جب ایک ماں اپنےذیابیطس کے مریض بچے کو انسولین کا انجکشن دینے کے لیے کسی دوا خانے یا ہسپتال کے چکر کاٹٹی ہے اور ہر کاونٹر سے خالی ہاتھ لوٹتی ہے تو سوال یہ نہیں ہوتا کہ دوا کیوں نہیں ملی ؟ بلکہ سوال یہ ہوتا ہے کہ ہم کس قسم کے سماج میں زندہ ہیں ؟ ایسامعاشرہ جو اپنی بنیادی انسانی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتا وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کا خواب کیسے دیکھ سکتا ہے ؟ پھر دوسری پریشانی یہ لاحق ہو جاتی ہے کہ اس صورتحال میں وہ اب کیا کرۓ اور کہاں جاۓ ؟کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایک معمولی سا وائل ایک چھوٹا سا انجکشن جو زندگی کی ڈور سنبھالے ہوے ہے وہ اتنا نایاب ہو جاۓ گا کہ انسان اسے پیسوں سے بھی حاصل نہیں کر سکے گا ؟
پاکستان کا نظام صحت پہلے ہی مالی بحران ،بدانتظامی اور سیاسی بےحسی کا شکار تھا لیکن حالیہ دنوں میں انسولین جیسی بنیادی دوا کی عدم دستیابی نے نہ صرف مریضوں بلکہ ان کے خاندانوں کو بھی ذہنی ،جسمانی اور مالی اذیت میں مبتلا کر دیا ہے ۔انسولین جو ایک عام ذیابیطس مریض کے لیے آکسیجن کی طرح ناگزیر ہوتی ہے ۔اب کئی علاقوں میں یا تو ناپید ہو چکی ہے یا پھر مہنگی ہوگئی ہے کہ متوسط طبقے کے لیے بھی دسترس سے باہر ہے ۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال لاکھوں افراد کو ذیابیطس لاحق ہوتی ہے اور انسولین ان کی روزمرہ زندگی میں علاج کا اہم جزو ہے ۔مگر افسوس کہ سرکاری ہسپتال تو ایک طرف دواخانوںمیں بھی ذخیرہ اندوزی ،بدعنوانی ،اور ناقص پالیسیوں کی وجہ سے یہ دوا یا تو ناپید ہے یا پھر غلط ہاتھوںمیں پہنچ رہی ہے ۔آخر ایک مریض کہاں جاۓ ؟ جب مفت انسولین ملنے کی بجاے اسے وہ بلیک میں خریدنے پر مجبور ہونا پڑے؟ جب مقامی ادویات ساز کمپنیاں اور فارمیسی خام مال کی قلت ،ڈالر کی بلند قیمت اور حکومتی بےخبری کا رونا روتے دکھائی دیں تو ان مریضوں کے زخموں پر مرہم کون رکھے گا ؟ یہ محض دواکی کمی نہیں ،یہ ایک نظام کی ناکامی ہے ۔ایک ایسا نظام جو ہسپتال توبناتا ہے مگر اندر ادویات موجود نہیں ،جو ڈاکٹر تو بھرتی کرتا ہے مگر ان کے ہاتھ خالی ہیں ،جو صحت کا بجٹ تو بناتا ہے مگر اس کا رخ اشرافیہ کے ہسپتالوں کی طرف موڑ دیتا ہے ۔
اب سوال یہ ہےکہ ہم غریب لوگ کیا کریں؟ ہم کب تک محض سوشل میڈیا پر یا سڑکوں پر احتجاج کرتے اور شور مچاتے رہیں گے ؟ کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم عام انسان کی صحت کو بھی ایک بنیادی انسانی حق سمجھا جاے ؟ کیا ہم اب بھی چپ رہیں گے جب ٹائپ ون شوگر کا ایک بچہ صرف اس لیے دنیا سے رخصت ہوجاۓ کہ اس کے پاس انسولیں خریدنے کے پیسے نہ تھے ؟ یا اسے عدم دستیابی کی باعث انسولین مل ہی نہ سکی ہو ؟۔ انسولین کا نہ ملنا یا کم ملنا صرف ایک دوا کی عدم دستیابی نہیں یہ ایک قومی المیہ ہے جو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ہمارا نظام صحت ہمارا سماجء ضمیر اور ہماری ترجیحات سب کچھ بیمار ہو چکا ہے اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو آنے والا کل ہم سے ہمارے بچوں اور بیمار بزرگوں کی سانسوں کا حساب مانگے گا اور شاید اس وقت ہم خالی ہاتھ ملتے ہوں گے بلکل اس ماں کی طرح جس کے ہاتھ میں صرف انسولین کی خالی ڈبیہ یا وائل رہ گئی ہے۔ارباب اختیار کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ضروری ہے کیونکہ ایسی دوائیوں کی عدم موجودگی یا کم یابی معاشرے میں بےچینی کا باعث بنتی ہے ۔ہسپتالوں میں انسولین کی موجودگی اور مفت فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔ہسپتالوں سے مفت ملنے والی انسولین ہی غریبوں کی آخری امید ہوتی ہے ۔