الوداع تیمور حسن تیمور

روبرو۔۔۔۔محمد نوید مرزا

دنیا میں بے شمار ایسے لوگ ہیں،جنھیں قدرت نے کسی ظاہری کمی یا معذوری کے باوجود بے پناہ صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔شعراء میں اقبال عظیم جیسے عظیم نعت گو شاعر مکمل طور بصارت سے محروم تھے لیکن انھوں نے بھر پور زندگی گذاری ۔اسی طرح استاد الشعراء علامہ ذوقی مظفر نگری بھی عمر کے بڑھنے کے ساتھ رفتہ رفتہ بینائی سے محروم ہوتے گئے،مگر انھوں نے سکول میں بحثیت استاد اور شاعری میں استاد الشعراء کا درجہ حاصل کیا ۔ان کے شاگردوں میں شامل ہونے کا اعزاز مجھے بھی حاصل رہا ہے۔اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔
پچھلی تین دہائیوں میں جس شاعر نے بصارت سے محرومی کے باوجود دنیائے ادب میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اس میں صرف ایک نام ہی نظر آتا ہے اور وہ ڈاکٹر تیمور حسن تیمور ہیں۔جنھوں نے بینائی سے محرومی کو اپنے لئے روگ نہیں بنایا ۔انھوں نے مشکل حالات میں اپنے تعلیمی مراحل طے کئے اور اس وقت گورنمنٹ سائنس کالج وحدت روڈ میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر تعینات تھے۔
میں آج سے تیس برس پہلے کے کم عمر تیمور حسن کو جانتا ہوں۔جن سے میری ملاقاتیں پرانی انار کلی کے ایک ریستوران میں ہوا کرتی تھی۔ان دنوں محترم ڈاکٹر تحسین فراقی اور جعفر بلوچ مرحوم وھاں مشاعرہ کرایا کرتے تھے اور میں وھاں ہر ماہ جاتا تھا،جہاں تیمور بھائی اور فیصل حنیف بھی میرے ہمراہ ہوتے تھے ۔پھر فیصل بھائی تو مکمل طور پر تقریبات سے دور ہوگئے اور میں بھی تقریبات کے حوالے سے محدود ہو کر رہ گیا۔جعفر بلوچ شاید تیمور کے استاد تھے۔عجیب بات ہے جس عمر میں وہ اس دار فانی سے رخصت ہوئے ۔قریب قریب اسی عمر میں تیمور بھی چلے گئے۔
تیمور نہ صرف ایک پختہ فکر اور توانا لہجے کے شاعر تھے بلکہ وہ تحقیق سے بھی جڑے ہوئے تھے۔ان کے دو شعری مجموعے غلط فہمی میں مت رہنا اور ترا کیا بنا،سرمایہء ادب ہیں۔بطور محقق انھوں نے 2012ء میں اردو غزل کی آبرو بے پناہ شاعر شکیب جلالی پر تحقیقی مقالہ لکھ کر یونیورسٹی آف پنجاب سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔تیمور کے تھیسس کا عنوان ،،جدید غزل کی تشکیل اور شکیب جلالی،،تھا۔
تیمور حسن تیمور کی شاعری زندگی سے بھر پور تھی۔ان کے کئی شعر اور غزلیں مشہور ہوئیں۔انہی مقبول غزلوں سے ہی ان کے شعری مجموعوں کے نام رکھے گئے۔تیمور ایک باصلاحیت اور بھر پور تخلیقی قوت رکھنے والا شاعر تھا۔تیمور نے جدید لہجے کے شاعر کے طور پر ادبی دنیا میں اپنی شناخت بنائی تھی۔لیکن قدرت کا اپنا ایک نظام ہے۔موت کا وقت طے ہے اور ہمارا یہ پیارا شاعر صرف 51 برس میں ہی زندگی سے منہ موڑ گیا۔اس موقع پر مجھے اپنا پرانا شعر بہت یاد آیا۔۔۔۔

گذر گیا تو نشاں تک نہیں ملا اس کا
وہ کیسے لوٹ کے آتا ہوا کا جھونکا تھا

ڈاکٹر تیمور بھی ایک خوشبودار جھونکے کی طرح دنیا میں آئے اور ہر طرف اپنی بے مثال شاعری کی مہک بکھیر کر دنیائے فانی سے چلے گئے ،لیکن دنیائے ادب میں ژندہ و جاوید ہو گئے۔تیمور بھائی کے لئے دعائے مغفرت ہے۔اللہ پاک ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائیں،آمین
آخر میں مرحوم کے چند بے مشال اور خوبصورت شعر ملاحظہ فرمائیں

موتی نہیں ہوں ریت کا ذرہ تو میں بھی ہوں
دریا ترے وجود کا حصہ تو میں بھی ہوں

اے قہقہے بکھیرنے والے تو خوش بھی ہے
ہنسنے کی بات چھوڑ کہ ہنستا تو میں بھی ہوں

سفر میں ہوتی ہے پہچان کون کیسا ہے
یہ آرزو تھی مرے ساتھ تو سفر کرتا

یہ جنگ جیت ہے کس کی یہ ہار کس کی ہے
یہ فیصلہ مری ٹوٹی کمان سے ہوگا

تجھے زندگی کا شعور تھا،ترا کیا بنا
تو خموش کیوں ہے مجھے بتا ترا کیا بنا
نئی منزلوں کی تلاش تھی سو بچھڑ گئے
میں بچھڑ کے تجھ سے بھٹک گیا ترا کیا بنا

مجھے علم تھا کہ شکست میرا نصیب ہے
تو امیدوار تھا جیت کا ،ترا کیا بنا

Comments (0)
Add Comment