نابغہِ روزگار و نوادِرِ روزگار شخصیت سید حیدر گیلانی اعلی اللہ مقامہ

سید حیدر گیلانی

یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب راقم روزنامہ جنگ لاہور میں صحافتی خدمات انجام دے رہا تھا تب انٹرنیٹ اور موبائل فون تک رسائی صرف بڑے شہروں تک ہی محدود تھیں، اُس دور میں محدود اطلاعات کا ذریعہ پی ٹی وی اور موثر اطلاعات بذریعہ اخبارات عوام الناس تک پہنچتی تھیں۔
راقم نے صبح سویرے اپنےدفتر پہنچتے ہی اخبار اُٹھایا کیونکہ آج سید حیدر گیلانی کا پبلک سرورس کمیشن کی طرف سے اردو لیکچرار کے امتحان کے نتیجہ کا اعلان ہونا تھاکسی دوسری خبر پر نظر کیے بغیرسب سے پہلے اُس صفحہ کو کھولا جہاں امتحانی نتائج شائع ہوتے تھے جن امیدواران کی بطورِ لیکچرار کامیابی کا اعلان تھا اُن میں حیدر گیلانی کا نام بھی موجود تھا فوراً پی ٹی سی ایل فون سےاُن کے برادرِ کبیر سید محمد کلیم حیدر گیلانی کا نمبر ملایا اور حیدر گیلانی کی کامیابی کی اطلاع دی، اُنہوں نے اطمینان بخش مسرت کے ساتھ محبت و شفقت بھرے انداز میں فوراًمجھے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آج تمھارا بھی ایم اے سیاسیات کا نتیجہ آنا تھا کیا بنا؟احقر نے عرض کیا کہ آپ کی دعاؤں سے بندہ ناچیز بھی کامیاب ہو گیا ہےاُن کی طرف سے اس ایک جملے سےمجھے اپنی اہمیت کا بھی خوشگوار احساس ہوا کہ کوئی تو ایسی شخصیت ہے جس کے لیےمیری کامیابی اہم ہے تو یوں حیدر گیلانی اور راقم کا ایک ہی روز امتحانی نتیجہ کا آنا اس عظیم ہستی کے ساتھ میری سینکڑوں ہزاروں یادگاروں میں سے ایک یادگار کے طور پر میرے دل و دماغ میں محفوظ ہے ۔
حیدر گیلانی جو کہ قبل ازیں بھی ایڈہاک بنیادوں پر البیرونی کالج پنددادنخان میں بطورِ اردو لیکچرار اپنی خدمات انجام دے رہے تھے پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کامیابی کے بعد اسی کالج میں مستقل بنیادوں پر تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔
راقم کو بیسیوں بار حیدر گیلانی کی ہمراہی میں یا اُن سے ملاقات کی چاہت لیے البیرونی کالج پنڈدادنخان جانے کا اتفاق ہوا اسی دوران اُنہیں کالج لائبریری کے انچارج کی اضافی ذمہ داریاں سونپی گئیں تو راقم فارغ اوقات میں مطالعہ کتب کی خاطر کالج پہنچ جاتا اور پورا پورا دن وہاں گذارتا۔
اس عرصہ میں جوبات مشاہدہ میں بھی آئی اور جس کا اُن کے رفقاء بھی اکثر اظہار کرتے سُنے گئے جو میرے لیے حیران کُن اور سبق آموز بھی تھی اور متاثر کُن بھی تھی وہ یہ کہ حیدر گیلانی کسی بھی کلاس پریڈ میں پہنچنے میں منٹ تو دور کی بات ہے چند سیکنڈ کی بھی دیری نہیں کرتے تھے، لائبریری کے ریکارڈ شعبہ کے انچارج سے اُن دنوں میری کافی قربت ہو گئی ہم آمنے سامنے بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اُنہوں نے حیدر گیلانی کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کرنا شروع کیا جس میں صرف دو باتیں قارئین کے لیے پیش کر رہا ہوں وہ مجھے بتانے لگے کہ حیدر گیلانی یہ فرماتے ہیں کہ محکمہ تعلیم مجھے فریضہِ تدریس کا معاوضہ دیتا ہے اور اگر میں نے عمداً چند سیکنڈ بھی طلاب کے ضائع کیے تو مجھے ملنے والے معاوضے میں چند سکے بھی اس وقت کے شامل ہو گئے جو میں نے کمرہِ جماعت سے باہر گذارے تو میرا ضمیر مجھے جھنجوڑتا رہے گااُن کا دعویٰ فقط زبانی نہیں تھا وہ اس کے عامل بھی تھے۔شعبہِ ریکارڈ کے انچارج نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بتایا کہ ایک روز حیدر کیلانی کہیں دور سے سفر کر کے کالج پہنچے تو اُس وقت تک کسی جماعت کا ایک پریڈ گذر چکا تھا تو آپ سیدھے پرنسپل صاحب کے کمرہ میں داخل ہوئے اور اُن سے گذارش کی کہ یا تو میرے دیر سے پہنچنے کی محکمانہ طور پر آگاہی دے کر میری تنخواہ سے اس پریڈ کی کٹوتی کروائی جائے یا پھر آج پورے دن کی میری استحقاقی چھٹی منظور کی جائےکیونکہ میں پسند نہیں کرتا کہ مجھ سے جو ایک پورا پریڈ ضائع ہو گیا ہےمہینہ کے اختتام پر میری تنخواہ آئے گی تو اُس میں اس پریڈ کا معاوضہ بھی شامل ہو، جو میرے لیے کسی صورت حلال نہیں ہو گاکیونکہ وہ پریڈ تو میں نے طلبہ کی تدریس میں گذارا ہی نہیں۔
قارئین زبانی طور پر تو مجھ سمیت اکثریت دیانت و امانت کی مدعی ہے مگر عمل نہ ہونے کے برابر ہے اسی لیے اپنی محافل میں اکثر یہ بات عرض کرتا رہتا ہوں کہ زندگی کے رموز سے آشنائی کے لیے حیدر گیلانی جیسی شخصیات کی قربت مثبت رستہ یا یوں کہوں تو بے جا نہیں ہو گا کہ صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے اور رہنے کے لیے بے حد ضروری ہے ایسی ہستیاں انسانوں کو ظلمت کی تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آتی ہیں، میں اُن خوش نصیبوں میں سے ایک وہ کمتر انسان ہوں جس کو یہ سعادت نصیب رہی ہے یہ الگ بات ہے کہ مجھ ناچیز کا ظرف اس قابل نہیں تھاکہ اُن روحانی و اخلاقی فیوض کو اپنے اندر سمیٹ سکتامگر جس قدر بھی احقر اپنے اندر جو تبدیلی لا پایا وہ حیدر گیلانی کی کفش بوسی کا ثمرہ ہے۔
یہ چند الفاظ لکھنے کی تحریک مجھے ایک خبر سے ہوئی کہ البیرونی کالج پنڈدادنخان نے حیدر گیلانی کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں کالج کے لیکچر تھیٹر کو حیدر گیلانی کے نام سے منسوب کیا ہے جس کی منظوری کالج کونسل نےبھی دے دی ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے؀
بدن کی موت سے کردار مَر نہیں سکتا
جو بات قابلِ غور و باعثِ تفاخر ہے کہ کالج کونسل نے دو لیکچرز تھیٹر کے ناموں کی منظوری دی ہےاُن میں ایک لیکچر تھیٹر حیدر گیلانی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے اور دوسرا معروف روحانی شخصیت عارفِ کھڑی شریف میاں محمد بخش کے نام۔
کالج کونسل کااِن دو ہستیوں کے نام سے لیکچرز تھیٹر کا انتخاب یقیناً ایک دانشمندانہ اور فابلِ تحسین فیصلہ ہے جس بات کا ادراک صاحبان ِ عرفان بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment