“شوگر مافیا اینڈ سنز: مٹھاس میں لپٹی مکاری”

شاہد نسیم چوہدری ٹارگٹ 0300-6668477

اسلام آباد میں تازہ خبر یہ آئی ہے کہ حکومت اور شوگر انڈسٹری کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد چینی کی “ایکس مل” قیمت 165 روپے فی کلو مقرر کردی گئی ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ “ایکس مل” کے بعد “ایکس مہنگائی”، “ایکس عوام” اور “ایکس برداشت” کی منزلیں ابھی باقی ہیں۔

قوم ابھی آٹا، بجلی، پٹرول، اور گیس کی قیمتوں کے صدمے سے سنبھل نہ پائی تھی کہ شوگر مافیا نے چینی میں ایسی مٹھاس گھولی کہ عوام کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ یاد رہے، یہ وہی چینی ہے جو کبھی راشن کارڈ پر مفت ملتی تھی، اب شوگر مافیا کی دعاؤں سے “بلیک گولڈ” بن چکی ہے۔
کہتے ہیں کہ جب چینی نایاب ہو جائے تو عوام خود میٹھا کھانا چھوڑ دیتے ہیں، مگر شوگر مافیا اس فلسفے کو مانتا ہی نہیں۔ ان کے نزدیک اگر کوئی چیز مہنگی نہ ہو تو اس میں مزہ ہی کیا؟ آخر عوام کو بھی تو روز کچھ نہ کچھ بھگتنا چاہیے۔ ویسے بھی قوم کو ہر روز نیا ذائقہ دینا اب ان مافیاؤں کی قومی خدمت بن چکی ہے۔
جو عوام کی جیب کاٹتے ہوئے بھی اتنے معصوم لگتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں:”ہم تو بس رسد و طلب کی طاقتور قوتوں کے ہاتھوں مجبور ہیں۔”یہ الگ بات ہے کہ ان قوتوں کے تمام دفتر، گودام اور حساب کتاب انہی کے ڈرائنگ روم سے چلتے ہیں۔ایک بزرگ شہری سے جب پوچھا گیا کہ بیٹا چینی کیوں مہنگی ہو گئی؟ تو فرمانے لگے:
“یہ شوگر مافیا والے اب چینی گنے سے نہیں، عوام کے صبر سے کشید کرتے ہیں!” اصل معاملہ یہ ہے کہ شوگر مافیا کوئی الگ مخلوق نہیں، یہ وہی قوم کے وہ درد مند تاجر، صنعت کار اور سابق وزراء ہیں جن کے گھروں میں سیلاب آجائے تو وہ اسے بھی “سبسڈی” قرار دے دیتے ہیں۔ عوام اگر خوشی سے گڑ کھانے لگیں تو فوراً “گڑ مافیا” بن جائے گا۔
اب چونکہ حکومت نے اعلان کر دیا ہے کہ ایکس مل قیمت 165 روپے ہوگی، تو عوام سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ یہ “ایکس مل” ہوتا کیا ہے؟ ایک بچہ تو پوچھ بیٹھا:
“ابو، یہ ایکس مل چینی وہی ہوتی ہے جو شادی کے بعد بیوی کے میکے سے واپس آتی ہے؟”
وزارتِ خوراک نے وعدہ کیا ہے کہ سستی چینی عوام تک پہنچے گی۔ مگر فی الحال تو چینی ایک خواب بن چکی ہے اور عوام ایک پرانے عاشق کی طرح دروازے پر بیٹھے پکار رہے ہیں:”اے چینی! تو کب آئے گی؟”سچ پوچھیے تو چینی اب صرف چائے میں نہیں، عوام کی نیند میں بھی گھل چکی ہے۔ رات کو لوگ جاگ جاگ کر گنّے کے خواب دیکھتے ہیں اور صبح اٹھ کر اپنی “میٹھی قسمت” کو کوستے ہیں۔
اسی دوران ہول سیلرز ایسوسی ایشن نے نعرہ مارا:
“ٹیکس معاف نہ کرو، گودام چھاپو!”
حکومت نے جواباً فرمایا: “بے شک چھاپے ماریں گے، مگر پہلے میڈیا پر اشتہار دیں گے کہ چھاپے مارنے آ رہے ہیں!”ایک شوگر مل والے سے جب پوچھا گیا کہ چینی کیوں مہنگی ہے؟ تو موصوف نے جواب دیا:
“دیکھیں جی، جب ہم گنے کو کندھے پر رکھ کر کوہِ ہمالیہ سے لاتے ہیں، پھر اسے دبئی میں جاکر کشید کرتے ہیں، اور آخر میں بیننکاک میں پیک کرتے ہیں، تو لاگت بڑھتی ہی ہے ناں؟”اب اگر حکومت نے چینی کی قیمت 165 پر فکس کر دی ہے تو عوامی جیب میں دراڑیں ڈالنے والی قیمتیں کون فکس کرے گا؟ ویسے بھی شوگر مافیا کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ حکومت کے ہر فیصلے پر تین دن سوگ اور چوتھے دن “نیا نرخ نامہ” جاری کر دیتا ہے۔
کالم نگار کو شک ہے کہ کچھ دنوں بعد شوگر مافیا “عوامی ریلیف پیکج” کے تحت چینی کے ساتھ ایک بوسیدہ پیاز اور ایک پھٹا ہوا تھیلا بھی مفت دینے کا اعلان کر دے گا۔
ویسے سنا ہے کچھ ممالک میں چینی کو عوامی حق سمجھا جاتا ہے، ہمارے ہاں اسے کسی دور کے “نواب کا وراثتی خزانہ” مانا جاتا ہے، جس پر صرف اشرافیہ کا حق ہے۔ عوام صرف اُس کی خوشبو سونگھنے کی حد تک شریک سمجھے جاتے ہیں۔محلے کے نائی فضل دین کا کہنا ہے:
“جس دن چینی سستی ہو جائے، سمجھو حکومت بدل گئی ہے یا شوگر مافیا بیمار پڑ گیا ہے!”
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس مافیا کو پکڑنے کا نعرہ لگایا جاتا ہے، وہ مافیا اکثر قومی اسمبلی یا سینیٹ کی کمیٹیوں میں قانون سازی کے مشورے دیتا نظر آتا ہے۔
آخر میں عوام کی خدمت میں یہی عرض ہے کہ چینی اگر ہاتھ نہ لگے تو غصہ مت کیجیے، صبر کیجیے، کیونکہ آنے والے دنوں میں شوگر مافیا کی طرف سے عوام کے لیے “چینی کے بدلے خواب” اسکیم شروع کی جا رہی ہے۔ جس میں ہر خواب کے ساتھ 20 روپے اضافی سبسڈی شامل ہوگی — بشرطیکہ خواب میں چینی نظر آ جائے!
اگر آپ کو چینی 200 روپے سے کم ملے تو اسے غنیمت جانیں، تصویر کھینچیں اور فریم کروا لیں، کیونکہ یہ منظر پھر شاید صرف نصاب کی کتابوں میں ملے گا۔

Comments (0)
Add Comment