لہو کا ہر قطرہ پکارے، یہ قرض ہے مٹی کا
جو دینا پڑا تو ہم دیں گے، یہ وعدہ ہے غیرت کا
کیپٹن باسط علی خان شہید کی چوتھی برسی- ایک اذان جو آج بھی ہمارے دلوں میں گونجتی ہے، وقت کہتا ہے، چار سال گزر گئے لیکن دل کہتا ہے ،وہ پل تو ابھی کل ہی کا ہے
13 جولائی کیلنڈر پر ایک تاریخ مگر دلوں پر ایک زخم،
یہ وہ دن ہے جب کیپٹن باسط علی خان شہید نے محض وردی نہیں پہنی، بلکہ شہادت کی چادر اوڑھ لی۔
وہ دن جب وطن نے ایک بیٹا کھو دیا ،اور ہم نے ایک چراغ
جو بجھ کر بھی ہمارے اندر روشنی چھوڑ گیا۔
آج جب 13 جولائی آتی ہے
تو صرف تاریخ نہیں پلٹتی یادیں پلٹتی ہیں، آوازیں گونجتی ہیں ماں کی دعائیں، باپ کی فخر بھری خاموشیاں
بہن کی آنکھوں کی نمی، بھائیوں کی خاموش سسکیاں
ہر شہید کی مٹی میں تمھاری خوشبو ہے۔
13 جولائی… وہ دن، وہ لمحہ، اور وہ بارش۔
کہتے ہیں بارش رحمت ہوتی ہے،
لیکن اُس دن… 13 جولائی کی وہ ہلکی ہلکی بوندیں،
رحمت کم اور جدائی کا اعلان زیادہ لگ رہی تھیں۔
جیسے آسمان بھی خاموشی سے رو رہا ہو،
جیسے بادلوں نے تمہارے فراق میں آنسو بہائے ہوں۔
کیپٹن باسط علی خان شہید رحمہ اللہ کے نام۔۔
جب تم نے وطن کی مٹی کو اپنے لہو سے رنگا،
تو بادلوں نے بھی تمہیں الوداع کہا،
اور ہم سب نے نم آنکھوں سے وہ منظر دیکھا
جہاں ایک ماں کا لال،
اس قوم کا ہیرو بن گیا۔
آج پھر 13 جولائی ہے…
آج بھی وہی موسم، وہی ہلکی ہلکی بارش،
لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ
اب تم نہیں ہو۔
جیسے بارش ہمیں پھر وہ لمحہ یاد دلانے آئی ہو،
جیسے کائنات بھی آج تمہیں یاد کر رہی ہو۔
باسط!
تم گئے نہیں،
تم ہر اُس بوند میں زندہ ہو
جو آسمان سے آج ہمارے دل پر گرتی ہے۔
باسط!
تم گئے نہیں، تم تو روشنی ہو،
جو ہر دل کی دہلیز پہ جلتی ہے۔
تم وہ بوند ہو جو برستی ہے
ہر اشک میں، ہر دعا میں،
تم وہ چراغ ہو جو
اندھیروں میں بھی جلتا ہے۔
ہمیں تمہاری قربانی کا حق ادا ہو،
ہم وہ چراغ بنیں
جو تمہارے لہو سے روشن ہو۔