کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس فیز 6 کے ایک فلیٹ میں اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش 21 دن بعد ملی۔
پولیس اہلکار کے مطابق، ’’جسم سے شدید بدبو آ رہی تھی… لگتا ہے کئی دن پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا۔‘‘
یہ خبر چند لمحوں کے لیے خبروں کی زینت بنی، پھر اگلی بریکنگ نیوز نے اسے روند ڈالا۔ لیکن کیا یہ صرف ایک موت تھی؟
یا ایک فکری جنازہ؟
کیا یہ ایک فرد کی کہانی تھی؟
یا پورے سماج کا چہرہ؟
حمیرا اصغر کی زندگی ہو یا موت یہ ایک تنہا عورت کی کہانی ہے، جو اس جدید معاشرتی بیانیے کی پیداوار ہے جسے ’’آزادی‘‘، ’’خودمختاری‘‘ اور ’’فیمینزم‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
حمیرا کو شوبز میں شناخت ملی، سوشل میڈیا پر فالوورز ملے، اور شاید معاشی استحکام بھی۔ مگر آخری لمحات میں نہ کوئی ہمراز تھا، نہ تیمار دار۔
نہ کسی نے دروازے پر دستک دی، نہ کسی نے فون پر اتنے دن غالب رہنے پر فکر مندی ظاہر کی ۔
*فیمینزم: کہاں سے چلی، کہاں پہنچی؟
*
فیمینزم کا آغاز خواتین کے بنیادی حقوق کے لیے ہوا تھا— تعلیم، ووٹ، تحفظ، مساوی مواقع۔
لیکن آج یہ نظریہ ایک ایسی گلی میں جا پہنچا ہے جہاں
خاندان رکاوٹ،
محبت کمزوری،
شوہر جابر،
اور پردہ قید سمجھا جاتا ہے۔
اب عورت کو “آزاد” تب سمجھا جاتا ہے جب وہ اکیلی ہو، خود کماتی ہو، اور رشتوں سے بے نیاز ہو۔
حمیرا اصغر کی زندگی بھی کچھ ایسی ہی تھی — خودمختار، آزاد، مگر تنہا۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تنہائی کا شکار خواتین ۔۔
پاکستان میں 2017 کی مردم شماری کے مطابق، چار لاکھ سے زائد گھروں میں خواتین اکیلی رہتی ہیں۔
دی لانسیٹ (2022) کے مطابق، جنوبی ایشیا کی شہری خواتین (عمر 30 تا 50 سال) میں تنہائی ذہنی صحت کا بحران بنتی جا رہی ہے۔
WHO (2023)
نے تنہائی کو ’’Silent Killer‘‘ قرار دیا ہے جو ذہنی و جسمانی بیماریوں، خودکشی اور بےحسی کو جنم دیتا ہے۔
یہ صرف اعداد نہیں — یہ ان سسکیوں کی بازگشت ہے جو کسی کو سنائی نہیں دیتی۔
دیکھنا یہ ہے کہ
“رشتے” — عورت کی قید ہیں یا محفوظ قلعہ؟
ایک وقت تھا جب خاندان عورت کا تحفظ ہوتا تھا۔
آج اُسے “رشتوں سے آزاد” ہونے پر فخر سکھایا جاتا ہے۔
جب پولیس نے حمیرا کے والد کو اطلاع دی تو جواب ملا:
“ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں، جیسے چاہو دفناؤ”
یہ جملہ ایک شخص کا ردِعمل نہیں، پورے معاشرے کی بےحسی کی تصویر ہے۔
ہم وہی معاشرہ ہیں جہاں،
باپ کی روک ٹوک کو ظلم کہا جاتا ہے۔
بھائی کی غیرت کو جاہلیت کہا جاتا ہے۔
شوہر کی رفاقت کو قید سمجھا جاتا ہے۔
اور انسٹاگرام کے لائکس کو
ماں کی دعا سے بہتر سمجھا جاتا ہے ۔
قارئین کو یہ بھی بخوبی پتہ ہےکہ
اسلام عورت کو سب سے بڑی عزت، تحفظ اور مقام دیتا ہے ۔
قرآن کہتا ہے:
“وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ” (النساء: 19)
’’اور عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ‘‘
رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
“تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بہترین ہو” (ترمذی)
اسلام عورت کو اشتہار نہیں، عزت بناتا ہے۔جبکہ
فیمینزم عورت کو بااختیار نہیں، اکیلا بنا رہا ہے۔
کیا واقعتاً ہمارا معاشرہ فکری بھٹکاؤ کا شکار ہوچکا ہے۔؟؟
ہم لڑکی کو نوکری دیتے ہیں، لیکن تحفظ نہیں۔
ہم اسے آزادی دیتے ہیں، مگر تنہائی کے اندھیرے میں چھوڑ دیتے ہیں
ہم اسے سکھاتے ہیں کہ “کسی کا محتاج نہ بنو”، مگر یہ نہیں سکھاتے کہ رشتے محتاجی نہیں، نعمت ہوتے ہیں۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ حمیرا اصغر سے پہلے، گزشتہ مہینے 20 جون کو بھی اسی نوعیت کا ایک اور دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا تھا، جب سینئر اداکارہ عائشہ خان کی لاش کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال کے ایک اپارٹمنٹ سے ملی۔ ابتدائی شواہد سے معلوم ہوا کہ وہ تنہا رہتی تھیں اور ان کی موت کو کئی روز گزر چکے تھے۔ ان کے فلیٹ سے اُٹھتی بدبو نے ان کے نہ ہونے کی گواہی دی۔ یہ دونوں واقعات محض اموات نہیں، بلکہ تنہائی کی موت کا وہ خاموش ماتم ہیں جو روز مرہ کی چمکتی دمکتی زندگی کے پیچھے چھپا ہوتا ہے—جہاں اسکرین کی چمک ماند پڑنے کے بعد انسان صرف ایک لاش بن کر رہ جاتا ہے، اور دنیا کو خبر بھی تب ہوتی ہے جب بدن گلنے لگے۔
یہ محض پولیس کیس نہیں — یہ سماجی، نفسیاتی اور فکری تفتیش کا مقدمہ ہے۔
اصل مدعا یہ ہے کہ عورت کو تنہا نہ ہونے دیں۔
یہ واقعہ صرف حمیرا اصغر اور عائشہ خان کا نہیں، ہر اس عورت کا ہے جو معاشرے کے شور میں تنہا ہو چکی ہے۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ
کیا ہر آزاد عورت، خوش ہے؟
کیا ہر تنہا زندگی، بااختیار ہے؟
کیا ہم نے عورت کو صرف معاشی مشین اور جذباتی یتیم بنا دیا ہے؟
عورت کو صرف “اکیلا چھوڑ کر آزاد” مت کیجیے —
اسے رشتوں، تحفظ، اور محبت کے ساتھ مضبوط کیجیے۔
کیونکہ تنہائی کا جنازہ، صرف عورت کا نہیں — پورے سماج کا جنازہ ہوتا ہے۔
یہ کہانی محض ایک اداکارہ کی موت کی نہیں،
یہ ایک عہد کی خاموش چیخ ہے۔
ایک ایسی چیخ جو دروازوں کے پیچھے دب جاتی ہے،
فون کی اسکرینوں پر سائلنٹ ہو جاتی ہے،
اور سوشل میڈیا کے شور میں دفن ہو جاتی ہے۔
اکثر عورتیں وقت سے پہلے مر جاتی ہیں،
کبھی لا تعلقی کے زہر سے،
کبھی مصنوعی آزادی کے بوجھ سے،
اور کبھی اس خوف سے کہ اگر بولیں تو ’’رشتے توڑنے والی‘‘ کہلائیں گی۔
سچ تو یہ ہے کہ
عورتوں کو تنہا کر کے،
ہم نے انہیں بااختیار نہیں، بے آواز بنا دیا ہے۔
اور جب کسی کے مرنے کی خبر 21 دن بعد ملے —
تو سمجھ لیجیے کہ وہ عورت نہیں مری،
پورا معاشرہ مر چکا ہے۔