کربلا: تاریخ نہیں، بیداری کا پیغام

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

  واقعۂ کربلا محض تاریخ کا ایک باب نہیں، بلکہ یہ وہ زندہ پیغام ہے جو ہر دور کے انسان کو جھنجھوڑتا ہے۔ یہ واقعہ ہمیں صرف ماتم، اشک اور سوگ نہیں دیتا بلکہ ضمیر کی بیداری، حق کی سربلندی اور ظلم کے سامنے ڈٹ جانے کا سبق دیتا ہے۔ کربلا ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جب باطل غالب ہو جائے، جب اقتدار کی ہوس دین کے چہرے پر نقاب ڈال دے، تب ایک حسینؑ اٹھتا ہے جو خاموشی کو توڑ کر صدائے حق بلند کرتا ہے—even اگر اس کی قیمت جان، خاندان اور بچوں کی قربانی ہو۔

امام حسینؑ کا انکار یزید سے انکار نہیں، بلکہ اس سوچ سے انکار تھا جو دین کو محض طاقت اور مفاد کا ذریعہ بنانا چاہتی تھی۔ اُنہوں نے بیعت نہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ حق کا علم تھامنے کے لیے تنہا ہونا بھی کافی ہے، بشرطیکہ یقین کامل ہو اور نیت خالص۔ کربلا کی سرزمین پر بہتر جانوں نے ہمیں یہ سکھایا کہ سچائی کے لیے لڑنا کبھی ضیاع نہیں، بلکہ وہی اصل کامیابی ہے جو رہتی دنیا تک مثال بن جاتی ہے۔

حضرت زینبؑ کی استقامت اس پیغام کی تکمیل ہے۔ کربلا میں بھائی کی قربانی دینے والی بہن نے کوفہ و شام کے بازاروں میں، یزید کے دربار میں، جبر اور خوف کے ماحول میں حق کی آواز کو بلند کیا۔ اُن کا یہ کردار ہمیں بتاتا ہے کہ کربلا صرف مردوں کا معرکہ نہیں تھا بلکہ عورتوں کی ہمت، شعور اور جرأت کی بھی ایک ناقابلِ فراموش داستان ہے۔

کربلا ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ظلم کے سامنے خاموش رہنا، ظالم کا ساتھ دینا ہے۔ اور جو قومیں فقط آنسو بہاتی رہیں، وہ تاریخ میں فقط نوحہ گر بن کر رہ جاتی ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرے، اپنے ضمیر اور اپنے رویوں کا جائزہ لینا ہوگا کہ ہم حسینی صف میں کھڑے ہیں یا یزیدیت کے پھیلاؤ میں سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔

آج کے دور کا یزید صرف تلوار نہیں چلاتا، وہ جھوٹ، کرپشن، لالچ، تعصب، ناانصافی اور مفاد کے لباس میں چھپا ہوتا ہے۔ اسے پہچاننا، اس کا مقابلہ کرنا اور اس کے خلاف آواز اٹھانا ہی حسینی پیغام پر عمل ہے۔ اگر ہم صرف تعزیے اٹھا کر، مجلسوں میں آنسو بہا کر، اور ظاہری اظہارِ غم کو مقصد بنا لیں، تو یہ کربلا کی روح سے غفلت ہوگی۔

کربلا بیداری کا پیغام ہے۔ یہ ہمیں جھنجھوڑتا ہے، آواز دیتا ہے، اور قدموں کو جھٹک کر اٹھنے کا حوصلہ بخشتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ظلم چاہے جتنا بھی طاقتور ہو، اگر ضمیر زندہ ہو، تو حق ہمیشہ سربلند رہتا ہے۔

کربلا کے وارث وہی ہو سکتے ہیں جو بولتے ہیں، جو ڈٹتے ہیں، جو قربانی دیتے ہیں—اور جو ظالم کے دربار میں بھی یہ کہہ سکیں: “ما رایتُ الا جمیلاً”۔

یقیناً، کربلا صرف ماضی کا ایک سانحہ نہیں، یہ ہر لمحے میں زندہ وہ پیغام ہے جو کہتا ہے:
جیو تو حق کے لیے، مرو تو عزت کے ساتھ۔

Comments (0)
Add Comment