“احسنِ تقویم انسان”– اللہ کا تخلیقی شاہکار

تحریر۔۔۔امجد علی

یقیناً قرآنِ حکیم کا طرزِ بیان ایک بے مثال ادبی معجزہ ہے۔ یہ محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ زندہ اور بیدار کلام ہے جو فصاحت و بلاغت کی بلندیوں کو چھوتا ہوا براہِ راست انسان کے دل و دماغ میں اترتا ہے۔ انسان کی فطرت میں تجسس، کہانی سے رغبت، اور معنویت کی پیاس ودیعت ہے، اور قرآن انہی دروازوں سے داخل ہو کر انسانی شعور سے ہمکلام ہوتا ہے۔
قرآن معظم کا اسلوب کسی روایتی نثر، نظم یا فکشن کے سانچے میں محدود نہیں، مگر ان تمام اصناف کے اعلیٰ اوصاف کے علاوہ یہ ان سب سے جدا زمینی انداز بیان سے کہیں ماورا الوہی کلام ہے۔ وہ ٹھوس حقائق پر کہانیوں کے رنگ میں مکالمہ کرتا ہے، اور بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے جیسے خالقِ کائنات خود براہِ راست قاری سے مخاطب ہے۔ یہی انداز قرآن کو محض مطالعہ یا سماعت کا عمل نہیں رہنے دیتا بلکہ انسان کے باطن کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ قرآن کی ہر داستان، حقیقت کی کوکھ سے جنم لے کر تمثیل کے لبادے میں انسان کی فکری ساخت کو متأثر کرتی ہے۔ یہ فکشن نہیں، مگر فکشن سے کہیں زیادہ مالائی اثر پذیری رکھنے والا کلام ہے۔ اسی لیے قرآن معظم بارہا انسان سے سوال کرتا ہے۔
“ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان بنایا، تو کوئی ہے جو غور کرے؟” (القمر)
اکثر لوگ قرآن پاک کی تلاوت تو کرتے ہیں، مگر وہ توجہ، شعور، لگن ناپید ہوتی ہے جو تدبر کے دریچے وا کرکے کلام کو دل تک پہنچاتی ہے۔ خالقِ کائنات جھنجھوڑ کر فرماتا ہے: “کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟” کیونکہ یہ کلام تمہارے لیے ہے، تمہارے ہی باطن کی روشنی کے لیے ہے۔
قرآن پاک کی ایک مختصر سی آیت جو ایک وسیع کائنات کی معنوی جھلک اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ائیے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔
“بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا۔” (سورۃ التین: 4)
“احسنِ تقویم” کا مفہوم کیا ہے۔
“احسن”: سب سے خوبصورت، بہترین
“تقویم”: ساخت، قامت، توازن، درستگی
یعنی “احسنِ تقویم” کا مطلب ہوا۔ “ایسی کامل اور متوازن تخلیق، جس میں حسن اور تناسب کی اعلیٰ ترین جھلک ہو”۔
عام طور پر اس آیت کو جسمانی حسن و جمال اور اعضاء کے تناسب پر محمول کیا جاتا ہے، اس بات میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں کہ وہ وجودی اعتبار سے بھی وہ حسن کی بام عروج پر فائز ہے مگر انسان ایک جسم اور روح کا مرکب ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ انسان کے کس تخلیقی مرحلے کے حوالے سے اسے “احسنِ تقویم” کہا گیا؟ کیاجسمانی وجود کی تخلیق؟ اگر جسم کی پیدائش کو دیکھیں تو پہلا مرحلہ بچے کی ماں کی گود میں آنکھ کھولنے کا ہے۔ مگر اکثر نومولود بچوں میں دل کے سوراخ، بینائی کے مسائل یا دیگر پیچیدگیاں دیکھی جاتی ہیں۔ اس لیے یہ مقام تخلیق کامل کا نہیں ہو سکتا۔
دوئم ہم حالتِ نطفہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہاں بھی جینیاتی نقائص، جیسا کہ تھیلیسیمیا، وجود میں منتقلی کر سکتے ہیں۔ گویا یہ مرحلہ بھی “احسنِ تقویم” کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ تو کامل تخلیق کیا ہے؟ قرآن میں فرمایا گیا ہے۔
“ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے (یعنی سے) سے پیدا کیا ہے۔” (المؤمنون- 12)۔ مگر یہ بھی جسمانی وجود کی ابتدائیات میں شامل ہے اور اس میں بھی وہی مسائل درپیش ہیں۔
پھر سورۃ اعراف میں فرمایا:
“اور یاد کرو جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور پوچھا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا, کیوں نہیں!” (الاعراف: 172-7)
شارحین کے مطابق یہی مقام “عالمِ ارواح” کہلاتا ہے وہ لمحہ جب اروح تخلیق ہوئیں۔ اللہ نے فرشتوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
“پھر جب میں اسے سنوار دوں، اور اس میں اپنی روح (میں سے کچھ) پھونک دوں، تو تم اسے سجدہ کرنا۔” (الحجر: 29)
اس سے واضح ہوا کہ سجدے کا حکم جسمانی ساخت پر نہیں، بلکہ روحِ الٰہی کے نفخ کے بعد ہوا۔ تو یہی روحی مقام ہے جو اپنی اپنی بے پناہ پرفیکشن کی وجہ سے احسن تقویم کے معنوں پر پورا اترتا ہے۔ یہی وہ “سوفٹ ویئر” ہے جو انسان کو “خلیفۃ اللّٰہ” کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ یہی “احسنِ تقویم” ہے۔ یہ اللہ کریم، جو زمین و آسماں کا نور ہے، کا بنایا سوفٹوئیر ہے۔ اسی نسبت سے اس کا اعلی، کامل اور صورت نور (انرجی، اور روشنی) ہونا لازم ہے۔ اسی نسبت سے انسان کا وجودی اعمال میں اپنے روحی سوفٹوئیر کی طرح ارفع، منور اور پاک باز ہونا ضروری ہے

“تقویم” کے استعارہ، کیلنڈر اور کوڈ کو دیکھیں۔ لغت میں “تقویم” کا ایک تاریخی اور لغوی مطلب “کیلنڈر” اور نحویات بھی ہے کیلنڈر یعنی وقت کی پیمائش کے لیے ترتیب دیا گیا چارٹ ہے، جو درحقیقت اعداد کا ایک منظم نظام ہے۔ اور اعداد، خاص طور پر صفر، ہر سوفٹ ویئر کی بنیاد ہوتے ہیں۔ گویا انسان کی روح بھی عددی ترتیب پر مبنی ایسا کامل نظام ہے، جو ہر عضو، ہر خلیے کو ٹریلنز ہدایات کی بغیر کسی خرابی، بغیر کسی اوورلیپنگ یا مسنگ مشنز کے ترسیل کرتا ہے۔ یہ تسبیح کے پاک دانوں (صفر) کی طرح نورانی دائروں میں متشکل ہے۔ یہ انسان اعظم کا اصل سوفٹوئیر ہے جبکہ ہر فرد میں موجود عقل، دماغ اس کا شیڈو سوفٹوئیر ہے جس کو آج کا انسان کاپی کر کے اے آئی ( AI) بنا کر زمین و آسماں میں اڑ رہا ہے۔ یہی وہ سافٹ ویئر ہے جو انسان کو اندر سے متحرک کرتا ہے۔ یہی اس کا اندرونی لوجیکل یونٹ ہے جو بتاتا ہے کہ کیا غلط ہے اور کیا درست۔ اگر انسان اس کمپاس کو نظرانداز کر دے، تو پھر جسم چاہے کتنا ہی حسین کیوں نہ ہو، وہ محض خالی ڈھانچہ رہ جاتا ہے۔ اس سوفٹوئیر میں مستعمل ہر عدد اور ہر سیٹ آف انسڑکشنز باکمال ہے۔ انسان کے اندر یہ نہایت اعلی فطری نظامِ ہدایت نصب ہے۔ اگر ہم اپنے ضمیر، وجدان اور دل کی اپلیکیشنز کو درست استعمال کریں اور انکی صدا پر لبیک کہیں، تو ہم یقیننا احسنِ تقویم کا شاہکار بن جائیں گے۔

Comments (0)
Add Comment