عجوبہ ء روزگار لاھوری جیالا

منشاقاضی حسبِ منشا

شیکسپیئر نے ایک بار کہا تھا غم دور کرنے کے لیئے ان لوگوں کے اقوال کو غور سے پڑھو جنہوں نے دنیا میں اپنی بے پایاں صلاحیتوں سے نام پیدا کیا مقولوں کی گہرائیوں کو سمجھو اور اچھے ادب کا مطالعہ کرو کہاوتیں اور مثالیں عقلمندوں اور عبرت حاصل کرنے والوں کے واسطے بیان کی جاتی ہیں بے وقوفوں کو ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ کہاوتیں مجموعی عقل انسانی کے صدیوں کے تجربے کا نچوڑ ہوتی ہیں اور ایسے لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں جو تجربہ کا پورا نچوڑ ہیں اور انہوں نے دانشمندی سے اپنی زندگی گزاری ہے۔ ہمیں اپنے والدین اور بزرگوں کی باتوں کو ان خوبصورت نگینوں کی طرح سمجھ لینا چاہیے جو اپنی مثال آپ ہوتے ہیں اور ایک ایسے ہی عجوبہ روزگار لاہوری جیالہ جس نے بزرگوں کی باتوں کو اپنے گلے میں مالا کی صورت میں پرو رکھا ہے میری مراد محترم خالد گل کی ذات گرامی سے ہے ، جو بے شمار محاسن کا مجموعہ ہیں اور نظر بہ ظاہر ایک انسان ہیں ، لیکن اپنی ذات میں پوری انجمن، پوری تحریک، پوری زندگی کا نچوڑ اور پورا ایک ادارہ ہیں، ان کے بارے میں ان کی حالات زندگی اور ان کی خدمات کا اگر اعتراف نہ کیا جائے تو اس جیالے کے ساتھ بڑی نا انصافی ہوگی ایسے لوگوں کو ہمیشہ توصیفی کلمات کے ذریعے آکسیجن لگانی چاہیئے ، وہ جہاں بھی ہوتے ہیں بھلائی اور خیر کے کاموں میں سبقت لے جاتے ہیں، کیونکہ ان کے اندر ایک بہبود کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے ،،ایسے لوگوں کا وجود کسی بھی معاشرے میں ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتا ہے وہ کینیڈا میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نائب صدر کی حیثیت سے اپنے فرائض منصبی پڑی خوبی سے سرانجام دے رہے ہیں اور آج کل آشیانہ قائد کے مکینوں کی بہبود کے بارے میں عملی طور پر قدم اٹھا رہے ہیں ایسے لوگ جہاں بھی بیٹھ جائیں وہ اپنا آپ منوا لیتے ہیں کیونکہ وہ کسی ایسے احساس میں مبتلا نہیں ہوتے جو انہیں احساس کہتری کا شکار کرئے ،

رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے

جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی میخانہ بنے

خالد گل پیدائشی لاھوری جیالا ہے اور کرشن نگر لاھور کا رھنے والا ھے جو مسلمانوں اور مسیحیوں میں یکساں شہرت رکھنے والا پیدائشی لیڈر ھے جن کا دعویٰ ھے کہ ضلح لہور کے حدود اربعہ کو خالد گل سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ، لاھور کا حدوداربعہ جو درج ذیل حدود پر محیط ھے ، مانگا منڈی، رنگیل پور سے سگیاں نین سکھ سے دھیڑ حاجی کوٹ تک ،بھمبہ جگھیاں سے ڈھے والے اعوان تک، آیچو گل سے کرن کے تک ، گھرکی سے سوا آصل تک ، لدھیکے اچے سے بابلیانہ تک اور راے ونڈ مآنگا روڈ سے نانگا پنڈ تک ۔ خالد گل کہتے ھیں کہ انکو دسترس حاصل ھے اندرون لاھور کے بارہ دروازوں کے قدیم و جدید باغوں،تالابوں، بستیوں،آبادیوں، باریوں، محلوں ،جھوٹوں، گھاٹیوں،
چوکوں،کھائیوں،ککھوئیوں، احاطوں ،وہہڑوں،،میدانوں اور بیٹھکوں سے اکھاڑوں تک وہ کہتےھیں کہ وہ واقف ھیں بارہ دروازوں کے اندر کی گلیوں ، بازاروں تک اور اس میں بسنے والے حسینی عزاداروں، ھندو،سکھ،بالمیک ،مسیحی،مسلم مذھبوں کے لوگوں کی کشمیری ،شیخ، جٹ ،مسلم شیخ،قریشی، بخاری ،نووی، رضوی،ورک،بھٹی، ارائیں،،سید، راجپوت،
پٹھانوں اور پرچا پت برادریو ں اور قوموں کا۔۔ جن کو احساس ھے گوالمنڈی میں رھنے والے خاموش ،ناراض نظریاتی کارکنوں کا اور کہنا ھے کہ وہ ان تمام کو متحد ،منظم اور متحرک کرنے کا ھنر جانتے ھیں ۔
کیونکہ ان کے عقب میں ایک سلیقہ شعار خاتون موجود ہے ، جس کا اعتراف خالد گل صاحب ہمیشہ کرتے چلے آئے ہیں ،

میرا کمال میرا ہنر پوچھتے ہیں لوگ

ایک باکمال خاتون میری دسترس میں ہے

خالد گل اپنی مرکزی قیادت کی توجہ ان جیالوں کی جان۔ مبذول کرتے ہوئے ان کی حالت زار کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ وہ کن حالات میں میں گائی کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں جب تک ہماری قیادت اپ نے کارکنوں کا خیال نہیں رکھے گی تو یہ خلا بڑھتا چلا جائے گا اس سلسلے میں بلاول بھٹو اصفہ بھٹو کے دل ہمارے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں ہر حال میں اپنے کارکنوں کی معاشی زلف پریشاں کو سنوارنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور وہ دن اپ دور نہیں ہے جب پاکستان پیپل پارٹی کے کارکنوں کی حالت ظال بہتری کی طرف سفر کرے گی اور یہ حقیقت ہے کہ

حقیر سمجھ کر بجھا دیا جنہیں تم نے
یہی چراغ جلیں گے تو ستاروں میں روشنی ھو گی

کیونکہ

ہم نے اپنی پلکوں کے میناروں پہ تراشے ہیں چراغ

اور آپ کہتے ہیں کہ افسانہ ء شب کچھ بھی نہیں

Comments (0)
Add Comment