عالمی قوتوں کی پاکستان کے بعد ایرانی سے بھی پسپائی

تحریر: خالد غورغشتی

محترم قارئین! جب ہمارے پیارے دیس کی تخلیق کا فیصلہ ہو چکا تو سب سے پہلا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ اس کے وجودِ پاک کو کون تسلیم کرے گا؟ جس مملکتِ خداوند کی بنیاد ہی کلمہ طیبہ پر رکھی گئی، جس کا مطلب ہی دین کی سر بلندی تھا، اسے سب سے پہلے جس دولتِ لازوال نے تسلیم کیا، وہ پڑوسی ملک ایران تھا۔ جس نے محمد، علی اور فاطمہ کے مُقدّس نَامُوں کا بَھرَم رکھتے ہوئے اس کے وجود کو نہ صرف تسلیم بلکہ دُنیا کو بَاوَر کروایا کہ پَاک اِیران تعلقات محمد، علی اور فاطمہ کے مُبارک ناموں کے صدقے قِیامت تک مضبوط سے مضبوط تر رہیں گے۔

اس بات کو یہی سمیٹتے ہوئے، حَالِیہ پاک انڈیا معرکہ میں بھارت کی پسپائی کی بات کریں تو اس قدر عِبرت ناک شکست تھی کہ شاید ہی تاریخ میں کسی حریف کو اتنی بِھیَانک شکست ملی ہو، جیسے ان کو ہوئی، پہلے خود حملہ کیا اور جب دوسری طرف سے سیز فائر کے خلاف ورزی پر ابتدائی جواب دیا گیا تو نہ صرف بوکھلاہٹ کے مارے جنگ بندی پر اُتر آئے بلکہ عالمی طاقتوں کو بیچ میں گھسا کر جنگ بندی کا معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ شکستِ فاش نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ عظیم ناکامی نہیں تو اور کیا ہے؟

اس کے فوراً بعد سُوچے سَمجِھے مَنّصُوبے کے تحت ایران اور اسرائیل جنگ چَھیڑ دی گئی، ایران کی جوہری تنصیبات پر چُپکے سے حملہ کیا گیا، جس میں ان کو کافی نقصان اٹھانا پڑا، اس کے بعد جوابی کارروائی میں ایران نے جو کچھ حشر نشر اسرائیل کا کیا، وہ یہودی جو عالمی طاقت کے نشے سے چکنا چور تھے؛ جن کا دعویٰ تھا کہ مکھی بھی ان کی اجازت کے بغیر ان کے اردگرد پَر نہیں مار سکتی، دنیا نے دیکھا، کیسے ایران نے نہ صرف ان کے ملک پر میزائل داغے، بلکہ ان کی اہم جوہری و عسکری تنصیبات کو بھی تہس نہس کر کے رکھ دیا، ایران کے پے در پے جوابی وار سے یوں محسوس ہونے لگا جیسے اسرائیل کھنڈر بن جائے گا اور واقعی اس کے کئی بڑے بڑے مراکز اور شہر کھنڈرات کا نمونہ پیش کرنے لگے تھے، جب شکست یقینی ہونے لگی تو ایک اور عالمی طاقت امریکہ نے بیچ میں گھس کر ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کر دیا اور جب جوابی وار میں ایران نے ان کے پڑوسی ممالک میں موجود اڈوں کو نشانہ بنایا تو عالمی جنگ چھڑنے کا اندیشہ ہونے لگا۔ اسی دوران سپریم کمانڈو، عالمی جنگجو سپہِ سالار اور فخرِ پاکستان جنرل حافظ عاصم منیر صاحب نے امریکہ دورہ میں جنگ بندی کے لیے کلیدی کردار ادا کیا اور بات رفع دفع کر کے ایران اسرائیل کے درمیان سیز فائر پر سب کو آمادہ کر لیا۔ یہ آرمی چیف محترم جنرل عَاصِم مُنیر دام ظلہ کی سیاسی و جنگی حکمت و بصیرت نہیں تو اور کیا تھی؟

اسرائیلی جو کل تک آسمان پر پناہ لے کر زمینی زندگی کو بُھول کر آسمانی سیاروں پر جینے کے آرزو مند تھے؛ آج ایران کے چھوٹے سے حملے سے زمین کے نیچے زندگی کی تلاش کے لیے دوڑ پڑے، یہ مناظر دیکھ کر دُنیا کی آنکھیں دھری کی دھری رہ گئی کہ عالمی قوتوں کا سردار اور پوری دُنیا کی معیشت کا منبع کہلانے والا اسرائیل آج تباہ و برباد ہو کر ٹکڑوں میں بٹنے لگا تھا اور ان ٹکڑوں کے نیچے آج یہودی پناہ لینے کے لیے دوڑ رہے تھے، کل تک فلسطینیوں کو اُجاڑنے والے آج خود اُجڑ چکے تھے، آج وہ بے یار و مدد گار کھانے پانی اور ادویات کے لیے دوڑ رہے تھے، چشم فلک نے عجب نظارے دیکھے پوری دُنیا کا نظامِ زندگی درہم برہم کرنے والے آج خود تباہ و برباد ہو رہے تھے۔ آج عالمی قوتیں خود چھوٹے چھوٹے ماتحتوں کو مدد کے لیے پکار رہی تھیں۔

آج انقلابِ ایران کے داعی امامِ خمینی کے فرزند اور جانشین آیت اللہ خامنہ ای نے ثابت کر دیا تھا کہ جنگیں طاقت کے ساتھ ساتھ جرات مندی اور ایمان کے ساتھ بھی لڑی جاتی ہیں۔ آج ثابت ہو گیا کہ دنیا میں سُپر پاور صرف اللہ ہے، آج عَالمِی طاقتوں کو پاکستان کے بعد ایران سے شکستِ فاش اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دجالی قوتیں کتنی ہی طاقت ور ہو جائیں، وہ امام مہدی علیہ السلام کے سپہ سالاروں کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی، کیوں کہ:

آج بھی ہو جو ابراہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

حضرت علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ اس شعر میں ایمان کی قوت کو بیان کر رہے ہیں۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال دیتے ہیں، جن کا بھروسہ اللہ پر مکمل تھا، اور آگ ان کے لیے سلامتی بن گئی۔ یہ پیغام ہے کہ اگر ہمارے دلوں میں بھی ویسا سچا اور خالص ایمان آ جائے تو سخت ترین حالات بھی ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ایمان انسان کو مصیبتوں میں بھی سربلند رکھتا ہے۔
آج کا وقت مطالبہ کرتا ہے کہ مسلمان ممالک ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر متحد ہو جائیں۔ پاکستان اور ایران کی حالیہ فتوحات محض عسکری نہیں بلکہ نظریاتی کامیابیاں ہیں، جو ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ اگر ہمارے حکمران ایمان، حکمت اور اتحاد کے ساتھ قدم بڑھائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں روک نہیں سکتی۔ دجالی نظام کا خاتمہ تبھی ممکن ہے جب امت مسلمہ ایک جسم بن جائے اور ہر ضرب اس جسم کی طاقت کا اظہار بنے، نہ کہ کمزوری کا۔

Comments (0)
Add Comment