سوات کے پانی میں بہتی بےحسی اور سیاست کی ریت پر کھڑی لاشیں

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

دریائے سوات کی بےرحم موجوں میں بہنے والے دس انسان ایک ہی خاندان کے خوشیوں سے لبریز چہرے پل بھر میں خاموش ہو گئے۔ وہ نہ کسی جرم کے مرتکب تھے، نہ کسی مہم جوئی کے رسیا۔ وہ صرف قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے آئے تھے اُس حسن سے جسے حکومت اپنی سیاحتی پالیسیوں کا تاج پہنا کر دنیا بھر کو دکھاتی ہے۔ لیکن اس تاج کے نیچے جو زنگ زدہ سچ چھپا ہے، وہ ہر بار ایک اور لاش کی صورت ہمارے سامنے آتا ہے اور ہم صرف موم بتیاں جلاتے ہیش ٹیگ کرتے اور الزام تراشی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

حادثہ ہوا، غم چھایا اور پھر وہی پرانا منظرنامہ حکومت ایک پریس ریلیز جاری کرتی ہے، اپوزیشن حکومت پر برستی ہے مقامی انتظامیہ اپنی بےبسی کا رونا روتی ہے، اور عوام وہ تماشائی بن کر سیاسی دنگل میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جنگ چھڑ جاتی ہے کوئی حکومت کو کوستا ہے، کوئی اپوزیشن کو، مگر کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ آخر کب تک ہم انسانی جانوں کی قیمت پر سیاحتی ترقی کے نعرے بیچتے رہیں گے۔

دریائے سوات میں صرف ایک خاندان نہیں ڈوبا، اُس کے ساتھ عوام کا اعتماد، ریاست کی ذمہ داری اور قوم کی اجتماعی ہوش مندی بھی بہہ گئی۔ مگر اس سے بڑی المیہ یہ ہے کہ حادثے کے فوراً بعد جو ردعمل آتا ہے، وہ “حفاظتی اقدامات” یا “مستقبل کی منصوبہ بندی” کا نہیں ہوتا بلکہ “سیاسی پوائنٹ اسکورنگ” کا ہوتا ہے۔ پارٹی A، پارٹی B پر الزام لگاتی ہے، پارٹی B پھرانی حکومت کی نااہلی کے قصے دہراتی ہے، اور یوں اصل مسئلہ انسانی جانوں کا تحفظ کہیں پس منظر میں دب جاتا ہے۔

اگر کسی وزیر یا افسر کا خاندان اس حادثے کا شکار ہوتا تو کیا پھر بھی یہی خاموشی چھائی رہتی۔ کیا تب بھی “تحقیقات جاری ہیں” کہہ کر عوام کو بہلا دیا جاتا؟ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں پالیسی صرف اس وقت بدلی جاتی ہے جب نقصان ‘اشرافیہ’ کو پہنچے، جب لاش کسی بااثر کے گھر سے اٹھے، جب جنازہ پروٹوکول کے سائے میں نکلے۔

آج سوال صرف یہ نہیں کہ سیلابی ریلہ اچانک کیوں آیا سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں خبر نہیں تھی کہ جولائی اور اگست میں دریاؤں میں طغیانی آتی ہے کیا سوات جیسے حساس علاقوں میں کوئی ایمرجنسی الرٹ، کوئی لائف گارڈ، کوئی وارننگ سسٹم موجود تھا؟ اگر تھا تو فعال کیوں نہ ہوا؟ اگر نہیں تھا تو سیاحت کی اجازت کیوں دی گئی؟

ہر سال سیر کے شوق میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ مگر ہم ہر بار وہی روایتی تعزیتی بیانات دے کر خود کو بری الذمہ کر لیتے ہیں۔ کوئی ادارہ نہیں جو ذمہ داری قبول کرے کوئی پارلیمنٹیرین نہیں جو بل پیش کرے کوئی صوبائی وزیر نہیں جو استعفیٰ دے۔ بس ایک خاموشی ہے جو ہر حادثے کے بعد مزید گہری ہو جاتی ہے۔

دریائے سوات کی موجوں نے صرف انسانوں کو نہیں نگلا اس نے ہمارے معاشرے کی بےحسی، سیاست کی خود غرضی اور نظام کی کھوکھلاپن کو بھی ننگا کر دیا ہے۔ مگر ہمیں شاید تب تک ہوش نہ آئے جب تک کوئی سیلاب ہمارے اپنے دروازے پر دستک نہ دے دے۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم صرف سیاسی الزامات سے آگے نکلیں اور اجتماعی طور پر ایک محفوظ، باخبر اور ذمہ دار معاشرہ بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ ورنہ آئندہ جب کوئی ماں اپنے بچوں کی تصویریں تھامے، دریا کے کنارے بیٹھی ہوگی، تو ہم پھر سے یہی سوال دہرا رہے ہوں گے:
“سوال یہ نہیں کہ دریا بہہ گیا، سوال یہ ہے کہ ہم کب جاگیں گے؟”

Comments (0)
Add Comment