پاکستان میں روڈ پر سفری انقلاب

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

پاکستان میں سفری سہولیات ہمیشہ سے ہی ایک بڑا مسئلہ رہی ہیں ۔خاص طور پر نچلے  اور درمیانے طبقے نے بڑی دقتیں اور مشکلیں جھیلی ہیں ۔سرکاری بسوں کی کمی ،نجی بسوں کی بدتمیزی اور ٹانسپورٹ یونیں کی اجارہ داری ایک عرصے تک عوام کے لیے عذاب اور دردسر بنی رہی ہیں ۔یہ ایک ایسا وقت تھا جب بس کا سفر مجبوری سمجھا جاتا تھا ۔میں ذاتی زندگی میں اس عذاب سے گزرنے کا تلخ تجرنہ کر چکا ہوں مجھے ستر کی دھائی میں کوٹ ادو سے احمدپور شرقیہ آنے کے لیے چار بسیں بدلنا پڑتی تھیں اور میں ہمیشہ صبح نماز کے بعد روانہ ہو کر یہ دو سو کلو میٹر کا سفر عشاءکی نماز تک مکمل کر پاتا تھا ۔راستے کی تھکن اور گرد غبار سامان کا بوجھ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اورلوڈنگ کی باعث کئی دن تک طبیعت خراب رہتی اور یہ سفر سے زیادہ صبر کا  امتحان بن جاتا تھا ۔ روائتی بس اسٹینڈ  ،بدتمیز عملہ ،گردآلود انتظارگاہیں ،حفظان صحت سے مبرا پرانے اور کھٹارا ہوٹل آج بھی یاد آتے ہیں تو جھرجھری سی آتی ہے ۔یہ ایسا روٹ تھا جہاں ٹرین نام کی کوئی چیز نہ تھی اور نجی ٹرانسپورٹ کی کھٹارہ بسوں کا راج تھا ۔گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کی ایک بس پورے دن میں اس روٹ پر چلتی تھی جسے بہترین سمجھا جاتا تھا ۔گورنمنٹ بس سروس کا  زوال  اور سڑکوں کی کچھ بہتری کی باعث نجی شعبہ آگے بڑھا اور بہت سی نئی بس سروسز کا  آغاز تو ہوا مگر سڑکوں کی زبوں حالی آڑے آئی نوے کی دھائی میں رات کو بہاول پور سے  رات کو سوار ہوکر صبح لاہور پہنچنے کو غنیمت سمجھا جانے لگا ۔سادہ بسوں سے بات ائیر کنڈیشنڈ بسوں تک پہنچی اور پھر موٹر وۓ کی تعمیر نے غیر ملکی کمپنی ڈائیو و کی صورت میں  ایک پیشہ وارانہ سفری انقلاب کا آغاز کیا اور فاصلے سمٹنے لگے ۔سفر تھکن کی بجاۓ دلچسپی اور تفریح کا باعث بن گیا ۔ہر چیز کا معیار بدل گیا ۔ریلوۓ اسٹیشن ویران اور ڈوئیوو ٹرمینل پر رونق ہوتے چلے گئے ۔ڈائیوو  کے ٹرینڈ اور کامیابی نے ٹرانسپورٹرز کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی اور بےشمار نجی سروسز کا آغاز تو ہوا مگر ڈائیوو کے سامنے بے بس تھے ان کے معیار کے مطابق سروسز اور انفراسڑیکچر مہیا کرنا کسی ایک کمپنی کے لیے ممکن نہ تھا ۔سڑکیں اور موٹر وۓ بنتے گئے نجی ٹرانسپورٹ میں بہتری آتی گئی جس کی باعث ریلوے لوگوں سے دور اور ویران ہوتا چلا گیا  اس کا خسارہ بڑھتا چلا گیا ۔مین  لائن کے علاوہ کئی ریلوے سیکشن بند کرنے پڑ گئے کئی ٹرینیں بند ہوگئیں ۔ڈائیوو کمپنی کا عروج اتنا بڑھا کہ یہ کمپنی عوامی ضروریات کو پورا نہیں کر پارہی تھی  اور روڈز پر رش بڑھتا جارہا تھا ۔ایسے میں پاکستانی برانڈ  فیصل مورز سفری انقلاب کی علامت بن کر سامنے آیا  اور ایک خوشگوار سفر کا   ایسا ٹرینڈ سیٹ کیا کہ دنیا محوحیرت ہے ۔ ڈائیوو اب بھی اپنی پریمیم سروس  اور بہترین پروفیشنل اسٹینڈرڈ کے ساتھ سڑکوں پر موجود ہے لیکن فیصل موورز کے مقابلے میں آنے سے دونوں کمپنیاں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے پر مجبور ہیں ۔یہی وہ صحت مند رحجان ہے جس نے پبلک ٹرانسپورٹ کو عوام دوست ،وقت کی پابند اور محفوظ بنایا ہے ۔فیصل موورز کا یہ انقلاب صرف  نئی اور آرام دہ بسوں میں ہی نہیں بلکہ ان کےمعیاری ٹرمینل اور سیفٹی مانیٹرنگ سسٹم کی موجودگی سفر کو تھکن سے تسکین میں بدل چکا ہے ۔ڈائیو و کی طرز پر  ہی باوردی ڈرائیور اور ہوسٹس کی معیاری سروس متاثر کن ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ فیصل موورز آج پاکستان کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی بن چکی ہے اور اندورون ملک کے دور دراز روٹس کے ساتھ ساتھ بیرون ملک  انٹرنیشنل سروسز کے اجرا ء نے اسے اور بھی چار چاند لگادئیے ہیں ۔فیصل موورز کا نعرہ ہے کہ “ہم سفر نہیں  احساس دیتے ہیں “شاید یہی وہ جذبہ ہے جس سے پاکستان کی سڑکوں پر اب صرف پہیے ہی نہیں ،اعتماد ،تحفظ اور خوشی بھی دوڑتی دکھائی دیتی ہے ۔ان کی دن بدن بڑھتی ہوئی بسوں کی تعداد ظاہر کرتی ہے کہ  ابھی بھی ان کی منزل دور ہے ابھی بھی  ملک کے بےشمار علاقے ایسے ہیں جہاںان کی سہولت نہیں پہنچ پائی  اور وہاں آج بھی بس کامطلب گھنتوں تاخیر ،بدسلوکی یا خستہ حال گاڑی  ہی ہے ۔اس لیے یہ ملک گیر خوشگوار آغاز ہمیں مکمل کامیابی کی طرف بڑھنے کا حوصلہ تو  دیتا ہے  مگر یاد بھی دلاتا ہے کہ ہر پاکستانی تک خوشگوار سفر کی اس تبدیلی کو پہنچانا ابھی باقی ہے ۔ پچھلے دنوں مجھے لاہور جانا پڑا تو فیصل موورز کا ہی انتخاب کیا ۔ان کی بزنس پلس کلاس کسی ائیر لائن سے کم نہیں ہے ۔دوسری جانب ان کا سپر ایکسپریس عام آدمی کے لیے کم قیمت میں بہترین معیار فراہم کر رہا ہے ۔آج پاکستان کے بیشتر شہروں میں آن لائن بکنگ ،سیٹ سلیکشن اورفیملی زون جیسی سہولتیں عام ہو چکی ہیں۔جس کے لیے موجودہ انتظامیہ خراج تحسین کی مستحق ہے ۔اس کے باوجود ابھی بہتری کی بڑی گنجائش موجود ہے ۔پروفیشنل سروسز کامعیار انٹر نیشنل لیول پر لانے کے لیے اسٹاف کی  پیشہ وارانہ تربیت پر توجہ دینی ہوگی ۔تاکہ ان کے رویے عالمی  معیار کو چھو سکیں ۔دوران سفر ریفریشمنٹ  اور کھانے کا معیار مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔بہت سے ٹرمینلز  ابھی بھی کمپنی کی توجہ کے منتظر ہیں ۔معذور افراد کے لیے سہولیات بہت محدود ہیں جن میں بہتری لانا ازحد ضروری ہے ۔گو ٹرمینلز پر لوڈنگ اور ان لوڈبگ کے لیے اسپیشل اسٹاف کی تقرری اور سامان بکنگ کے لیے خود کار سسٹم مشین کی تنصیب  ایک بہت منفرد سہولت ہے لیکن اسٹاف کی تربیت پر مزید توجہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ عوام سے انعام کی توقع نہ کریں بلکہ اپنی ڈیوٹی سمجھیں ۔سننے میں آرہا ہے کہ ڈائیو ،فیصل موورز اور کئی دوسری نجی کمپنیوں نے کراچی سے اسلام آباد ،لاہور ،پشاور اور کوئٹہ جیسے دور دراز سفر کے لیے عالمی میعار کی سلیپرز بسیں بھی چلانے کا فیصلہ کیا ہے جن میں واش روم  کی سہولت بھی مہیا کی جاۓ گی ۔پاکستان میں یہ سفری شعور کسی نعمت سے کم نہیں ہے ۔ان دونوں بڑی کمپنیوں نے اپنی اپنی کارگو  کی اضافی سروس بھی شروع کی ہوئی ہے جس کے ذریعے ملک بھر میں  اشیاء کی ڈیلیوری  سستی اور تیز ترین مہیا کی جارہی ہے ۔البتہ پروفیشنل ازم کی کمی دور نہیں ہو پارہی ۔ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں موجود روائتی رویے کچھ بدلے ضرور ہیں لیکن خدمت اور سروس کے اس معیار کو نہیں پہنچ پاۓ جس کی توقع کی جارہی ہے ۔یاد رہے کہ لوگ بزنس کلاس کا بھاری کرایہ ادا کرکے ان سے فضائی سفر جیسی سہولیات اور سروسز   کی امید رکھتے ہیں ۔اسٹاف کی وردی دیکھ کر تو کچھ  بہتری نظر آتی ہے لیکن ان کے رویے اور گفتگو سن کر یہ نعرہ بہت دور رہ جاتا ہے کہ ” ہم سفر نہیں احساس دیتے ہیں ” ۔شاید اس ذہنی و اخلاقی ترقی اور تربیت کے لیے مزید وقت درکار ہے ۔سروسز کے چیک اینڈ بیلنس پر توجہ چاہیے ۔

پاکستان میں رودڈ اور سڑکوں پر سفری انقلاب ایک ایسا موضوع ہے جو ملک کی معیشت ،عوامی سہولیات اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے گہرا تعلق رکھتا ہے ۔جو  ہر عام آدمی کی زندگی کا لازمی جزو بھی ہے اور ضرورت بھی ہے ۔پاکستان کی سڑکوں پر اب وہ دھول نہیں رہی جو تھکن کی علامت تھی بلکہ وہ گرد ہے جو ایک نئے سفری شعور کی خبر دۓ دیتی ہے ۔برسوں تک عوام بدحال بسوں ،ٹوٹی ہوئی سڑکوں اور غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز کے رحم وکرم پر سفر کی ایذیت برداشت کرتے رہے ہیں ۔ریلوے کا گرتا ہوا معیار اور وقت کی عدم پابندی نے پورے پاکستان میں اسے متاثر کیا ہے اور لوگوں نے وقت پیسہ بچانے اور تھکن سے بچنے کے لیے ہی سڑکوں کا رخ کیا ہے ۔جہاں اب منظر نامہ بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے ۔یہ صرف گاڑیوں کا انقلاب نہیں ہے یہ سوچ کا انقلاب ہے ،ایک اجتماعی تبدیلی کی نوید جو پبلک ٹرانسپورٹ کے تصور کو ایک نئی جہت دے رہی ہے ۔یہ نجی ٹرانسپورٹ کمپنیاں مستقبل میں مشعل راہ ثابت ہونگیں  اور اس لیول اور معیار کی مزید بےشمار کمپنیاں ان کے ساتھ شامل ہو نگیں۔سوچ کی ترقی کا یہ سفر اب رکنے کا نہیں بلکہ بڑھے گا ۔ایسے ادارۓ ملکی معیشت کی بحالی کے ساتھ ساتھ  عوامی معیار زندگی میں بہتری اور بےپناہ بےروزگاری میں کمی لانے کا باعث بھی بنتے ہیں ۔اس کے باوجود ریلوے کی سفری سہولت کی کمی محسوس کی جارہی ہے جو آبادی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ضروریات  پورا کر سکتی ہے ۔ بےشمار ریلوۓ ٹریک بند پڑے ہیں  اور ریلوۓ کے قیمتی اثاثے ضائع ہو رہے ہیں ۔

Comments (0)
Add Comment