پاکستانی ادب کے معمار: ڈاکٹر شیخ محمد اقبال شخصیت اور فن قسط نمبر2

(شاہد بخاری)

محمد اقبال کی پیدائش اور ان کی بینائی کے حوالے سے شیخ اللہ دیا لکھتے ہیں
”میرے بڑے لڑکے محمد اقبال کی بینائی پیدائش ہی سے کمزور تھی یہ آنکھوں میں درد کی وجہ سے گھنٹوں رویا کرتا تھا ہم سمجھے تھے کہ اسے کوئی پیٹ کی تکلیف ہے اتفاق سے میں بچوں سمیت امرتسر اپنے رشتہ داروں سے ملنے گیا وہاں محمد اقبال کی آنکھوں کا معائنہ ماہرِ چشم ڈاکٹر سوہن سنگھ سے کرایا انہوں نے بتایا کہ آنکھوں میں کالا موتیا ہے فوراً علاج کروائیں ورنہ بینائی جاتی رہے گی۔ پارٹیشن کے وقت جب ہم کرنال سے پاکستان آئے تو محمد اقبال کی عمر تقریباً 2 سال تھی ملازمت کے سلسلے میں مجھے جوئیہ جلال پور تحصیل خوشاب ضلع سرگودہا میں لوئر مڈل سکول کا ہیڈ ماسٹر لگا دیا گیا پھر ایک سال تک گورنمنٹ ہائی سکول حضرو ضلع اٹک میں مارچ 1950تک ملازم رہا، پھر گورنمنٹ ہائی سکول خوشاب ضلع سرگودہا میں متعین کر دیا گیا اور میں نے رہائش خوشاب میں اختیار کی۔ محمداقبال اور اسکے بھائی محمد اشفاق کو میں نے ماہر چشم ڈاکٹر محمد رمضان صاحب میو ہسپتال لاہور کو دکھایا انہوں نے محمدا قبال کے علاج سے معذوری ظاہر کی اور محمد اشفاق کی آنکھ کا اپریشن کیا جو کامیاب رہا لیکن بعد میں میری عدم موجودگی میں اس نے بھاگ دوڑ کی اور آنکھ پر پردہ گر گیا اور بینائی بالکل جاتی رہی جس کو ڈاکٹر رمضان بھی درست نہ کر سکے، قبل ازیں میں نے محمد اقبال اور محمداشفاق کو (جب ان کو کچھ نظر آتا تھا) اپنے گھر کے نزدیک پرائمری سکول میں داخل کرا دیا تھا جب یہ تیسری جماعت میں تھے کہ دونوں کی بینائی جاتی رہی مجھے بہت صدمہ ہوا ایک پختہ نمازی اور پابند شریعت ہوتے ہوئے بھی ا س عظیم شاک کی وجہ سے میں نے پوشیدہ طور پر دریائے جہلم میں (جو کہ میرے گھر کے نزدیک تھا) ڈوب مرنے کا تہیہ کر لیا ایک رات جب تمام گھر والے سو گئے میں آہستہ سے اٹھا، باہر جانے کے لئے کنڈی کھولی تو کنڈی کی معمولی سی آواز سے والدہ محمد اقبال اٹھ کھڑی ہوئیں اور بچے بھی جاگ گئے اور مجھے پکڑ لیا، محمد اقبال نے (جس کی عمر اس وقت آٹھ سال کے قریب تھی) چیخ کر کہا ابا جان!آپ اپنے آپ کو نہیں ہمیں قتل کرنے جا رہے ہیں خدارا ایسا نہ کرو۔ ایک چھوٹے بچے کی استدعا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے استقامت بخش دی اورمیں اس ارادہ سے باز آ کر پھر ان کی تعلیم کے سلسلہ میں منہمک ہو گیا“
مجھے ڈاکٹر اقبال نے بتایا کہ اشفاق اس وقت تیسری جماعت میں نہیں تھا،بس اس نے پڑھنا شروع کیا تھا تاہم اس دل دوز سانحہ کا اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں۔ شیخ اللہ دیا اور ان کی اہلیہ پر کیا بیتی ہو گی اس کے تصور ہی سے آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگتے ہیں اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر ساجد امجد نے اپنے مضمون ”دیدہ ور“ میں محمد اقبال کی نظر چھن جانے کے جانکاہ تجربے کو بڑی عمدگی سے سپردِ قرطاس کیا ہے۔
”وہ (محمد اقبال) بمشکل تیسری جماعت میں پہنچا تھاکہ ایک روز اس کے استاد نے قریب رکھی پنسل اٹھانے کو کہا اس نے ہاتھ بڑھایا لیکن ہاتھ وہاں رکھا جہاں پنسل نہیں تھی ہاتھ کو اندازے سے دوسری جگہ رکھا اور پنسل ہاتھ میں آگئی اس نے ماسٹر صاحب کی طرف دیکھا ایک پرچھائیں تھی جو اس کے سامنے کھڑی تھی وہ تقریباً چیخ اٹھا۔
”ماسٹر صاحب مجھے کچھ نظر نہیں آرہا“ کلاس ٹیچر اس کی نیم بینائی سے واقف تھے اسے ایک بچے کے ساتھ گھر بھیج دیا گھر قریب ہی تھا دیکھا بھالا راستہ تھا دوست ساتھ تھا اندھیرے میں چلتا ہوا گھر پہنچ گیا، ماں کی گود میں سر رکھ کر خوب رودیا۔ تھوڑی دیر میں شیخ اللہ دیا کو بھی خبر کر دی گئی وہ بھی پہنچ گئے۔”افسوس ڈاکٹر رمضان نے جو کہا تھا اس کا وقت آ گیا“ ،”اقبال کی ماں! اس کی بینائی چلی گئی، ہائے ابھی تو پوری عمر اس کے سامنے پڑی ہے“،تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ گھر میں کہرام مچ گیا خاندان کے جتنے لوگ تھے ان کے گھر میں جمع ہو گئے، افسوس کا اظہار تو کر ہی رہے تھے لیکن اکیلے میں کچھ اور ہی باتیں بھی ہو رہی تھیں، خصوصاً عورتیں سر گوشیاں کر رہی تھیں ”بچوں کا کیا قصور بڑوں کے گناہ ہوتے ہیں جو بچوں کے آگے آتے ہیں“، ”اللہ دیا نے کسی کا دل دکھایا ہو گا جس کی سزا بچوں کو ملی ہے“،”چاچی کو بھی کم نہ سمجھو صرف اللہ دیا کا قصور نہیں ہو گا“، ”اے بہن سنا ہے دوسرے بچے کا بھی آپریشن ہوا ہے بھلا بتاؤ اتنے سے بچوں کے کوئی اپریشن ہوتے ہیں“،”ان کے گھر میں ضرور کوئی آسیب ہو گا بچوں کی آنکھوں کے پیچھے پڑ گیا ہے“، ”اس گھر میں تو بچوں کو لانا بھی نہیں چاہیے“
”ہاں بہن میں تو اپنے بچوں کو منع کر دوں گی ان کے ساتھ کھیلنے نہ آئیں“
”اب یہ بتاؤ یہ اندھا بچہ کر ے گا کیا؟“
”ہائے ہائے بھیک مانگ کر اپنا گزارہ کرے گا“
”بس بہن اللہ سب کو محفوظ رکھے“۔ :
ہماری سنو گے لرز جاؤ گے
ہم نے کاٹی ہے کیسے میاں زندگی
نابینائی کے اس زہرہ گداز اور روح فرسا تجربے کو خود ڈاکٹر صاحب نے ماضی کے جھروکے میں جھانکتے ہوئے جس طرح محسوس کیا ہے وہ انتہائی دل دکھا دینے والا تجربہ ہے اپنی سوانح”پردہ سیمیں سے“ میں موصوف لکھتے ہیں:
”میں اکثردیکھتا ہوں کہ اگر چند لمحوں کے لئے روشنی ختم ہو جائے تو لوگ اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں، انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا،ہاتھ کہیں ڈالتے ہیں اور پڑتا کہیں اور ہے، قدم ڈگمگانے لگتے ہیں اور خوف سا طاری ہو جاتا ہے لیکن میں ان اندھیروں میں گزشتہ پچپن،چھپن برسوں سے موجود ہوں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میری ابتدائی زندگی خوشاب جیسے چھوٹے

Comments (0)
Add Comment