عائشہ خان مر گئیں، مگر ہم زندہ کیسے ہیں؟ 

تحریر: رخسانہ سحر
کراچی کے ایک فلیٹ میں بند دروازے کے پیچھے ایک فنکارہ نے خاموشی سے جان دے دی۔
نہ شور ہوا، نہ آنسو، نہ دعا، نہ کفن کی جلدی۔
عائشہ خان، جنہوں نے ٹی وی اسکرین پر برسوں رنگ بکھیرے، ہنسی بانٹی، آنکھوں کو نم کیا —
وہ اس دنیا سے یوں چلی گئیں کہ کئی دن تک کسی نے پوچھا تک نہیں:
“وہ کیسی ہیں؟ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟”
یہ سطریں لکھتے ہوئے میرے قلم کی نوک پر درد لرزتا ہے۔
یہ صرف موت کی خبر نہیں، یہ اس معاشرے کے اخلاقی دیوالیہ پن کی وہ دستک ہے جو ہم نے سننا چھوڑ دی ہے۔
جس معاشرے میں ایک فنکارہ مر جائے، اور اس کی خبر تب ملے جب تعفن دیواروں سے رسنے لگے — وہاں انسانیت، تعلق، اور عزتِ نفس مر چکے ہوتے ہیں، بس ان کی لاشوں پر تعفن ابھی باقی نہیں آیا۔
عائشہ خان کی موت، ان کی زندگی کی تنہائی کا تسلسل تھی۔
ایک ایسی عورت جو کبھی ہزاروں گھروں میں اپنی اداکاری سے دل جیتا کرتی تھی،
ہم فنکاروں سے صرف تفریح چاہتے ہیں، عزت نہیں۔
ہم ان کے زندہ رہنے پر تب خوش ہوتے ہیں جب وہ ہمیں بھلا لگتے ہیں،
مگر جب وہ بوڑھے ہو جائیں، بیمار ہو جائیں، یا منظر سے ہٹ جائیں —
تو ہم انہیں گویا مر چکے مان لیتے ہیں۔
ہم ایک بےحس معاشرہ بن چکے ہیں۔
جہاں زندہ انسان سے زیادہ، اس کی لاش بولتی ہے۔
جہاں شہرت کے بعد خاموشی ایک سزا بن جاتی ہے۔
جہاں فنکار صرف اس وقت تک عزیز ہوتا ہے جب تک وہ جگا رہا ہو — مرنے کی خبر تو تعفن دیتی ہے۔
کیا کبھی ہم نے سوچا؟
کتنے ہی سینئر فنکار کسمپرسی میں جی رہے ہیں؟
کتنی ہی عورتیں، جنہوں نے اپنے فن سے معاشرے کو شعور دیا، آج تنہائی میں گم ہیں؟
کتنے گھروں میں ایسے دروازے بند ہیں، جن کے پیچھے سانسیں دم توڑ رہی ہیں — مگر کسی کو پروا نہ ہوئی
ہم زندہ کیسے ہیں؟
عائشہ خان مر گئیں۔
ہم سب کے منہ پر خاموشی کا طمانچہ مار کر چلی گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ شہرت، ہنر، اور خوبصورتی — سب کچھ ایک دن ختم ہو جاتا ہے،
رہ جاتا ہے تو صرف ایک سوال:
⁠”کیا کسی کو میری سانسوں کی خبر ہے؟”
ایک نظم، ان کے نام: “خاموش کمرہ”
اک کمرہ تھا، اک چار دیواری
اک عورت تھی، آنکھیں بیزار سی
نہ ٹی وی چلا، نہ کال آئی
بس خاموشی تھی، اور تنہائی
پھر تعفن نے دروازہ کھٹکھٹایا
اور خبر بنی:
“عائشہ خان مر گئی ہیں”
کسی کو خبر تک نہ ہوئی—یہ خبر تب ملی جب ان کے فلیٹ سے تعفن اٹھنے لگا۔
یعنی موت آ گئی، وقت بھی گزرا، مگر کسی نے دروازہ نہ کھٹکھٹایا، کسی نے خبر نہ لی۔
یہ زندگی تھی ایک فنکارہ کی، جس نے برسوں عوام کو خوشیاں دیں، کرداروں میں جان ڈال دی، ڈراموں میں زندگی کے رنگ بھر دیے—اور آخرکار تنہائی کی سیاہی میں خود گم ہو گئیں۔
سوال یہ نہیں کہ وہ کیسے مریں، سوال یہ ہے کہ وہ کیوں تنہا مریں؟
کیا فنکار کا مقدر صرف تالیاں بجوانا اور پھر تنہائی میں دم توڑ دینا رہ گیا ہے؟
وہ عورت جو اسکرین کی رونق تھی، ایک دن اس کی زندگی اتنی غیر اہم ہو گئی کہ اس کی موت کی خبر بھی بدبو سے آئی؟
اس سے بڑھ کر اور کیا المیہ ہو گا؟
ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں فنکار، ادیب، اور تخلیق کار ریٹائرمنٹ کے بعد صرف یاد بن جاتے ہیں۔
نہ حکومت ان کا پوچھتی ہے، نہ چینلز، نہ وہ ناظرین جنہوں نے برسوں ان سے محبت کی۔
عائشہ خان کی خاموش موت ہم سب پر ایک سوال ہے:
کیا ہم اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ آس پاس کے انسانوں کی سانسوں کی خبر لینا بھول گئے؟
کیا ہم نے اپنے فنکاروں کو صرف استعمال کرنا سیکھا ہے، ان کا سہارا بننا نہیں؟
کیا انسان کی قدر صرف تب ہے جب وہ سکرین پر ہو، زندہ ہو، یا بااثر ہو؟
ایک چھوٹی سی نظم: “آخری سین”
پردہ گرا، تالی نہ بجی
روشنی بجھی، آنکھ نہ نم ہوئی
ایک کمرے میں سانس رکی
اور شہر کو خوشبو سے خبر ہوئی
Comments (0)
Add Comment