21 جون محترمہ بے نظیر بھٹو کی 72ویں سالگرہ کا روز،بڑی خامشی سے گزر گیا

تحریر:نیاز بالم حیدرآبادی

ہم ایک معاشرہ ہی ہیں مگر کیسا معاشرہ ہیں یہ غور طلب بھی ہے اور اس پر غور شاید ایک عبث عمل بھی کہا جا سکتا ہے، ہم صرف آج میں زندہ رہا کرتے ہیں اور ماضی کو بہت جلد فراموش کر دیتے ہیں،کسی شاعر نے کہا تھا نا کہ”زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے”مگر اس سے پہلے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قدرت نے وہ آسمان ہماری زمین پر پیدا ہی کیوں کیے؟تقسیم ہند سے قبل حضرت علامہ محمد اقبال،حضرت قائدا اعظم محمد علی جناح پھر پاکستان کی سیاست کو ایک نیا رنگ بخشنے والے انقلابی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو جیسے شاندار لیڈرز، اول الذکر دو ہستیاں حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال اور بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے جانثاروں کے ساتھ جدوجہد عظیم کے ذریعے ہمیں یہ وطن ازاد کروا کے دیا جس میں ہم عزت و وقار اور مادر پدر آزادی تشخص کے ساتھ سانس لیتے ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو کہ جن کی شعلہ بیانی،عالمی سیاسی تدبر اور انقلابی سوچ نے نہ صرف اسلامی دنیا کو پہلی مرتبہ متحد کیا بلکہ انہیں عالمی استعمار کے شکنجوں سے نکلنے کی راہ بھی دکھائی مگر افسوس کے سامراجی قوتوں نے اپنی مضبوط شکنجے کی جکڑ میں اس انقلابی اواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جکڑ کے خاموش کرا دیا، بھٹو اپنی موت سے قبل دیئے سے دیاء جلا چکے تھے،اپنی ساری اولاد میں سے ان کی عقابی نگاہ نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنی جانشینی کے لیے منتخب کر لیا تھا،ان کو سیاست کی باریکیاں سمجھا کر وہ اپنی ہی طرح ایک ذہین سیاست دار بنا چکے تھے،21 جون پاکستان اور اسلامی دنیا کی اس پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا یوم پیدائش یعنی ان کا جنم دن تھا مگر افسوس کہ ملک کے کسی بڑے اخبار یا ٹی وی چینل نے ان کے لیے دو لائنیں لکھیں نہ ہی بیان کیں،محترمہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ پر گزشتہ روز لاہور میں مجھے معروف نوجوان قانون دان شکیل احمد پاشاہ ایڈوکیٹ کی جانب سے اس روز کی مناسبت سے ایک اسٹیٹس موصول ہوا مگر اس کے علاوہ میں نے تمام ذرائع ابلاغ چھان مارے مکمل خاموشی تھی یہاں تک کہ ان کے شوہر نامدار آصف علی زرداری کہ جو ان کی شہادت کا پھل کھا رہے ہیں اور دوسری مرتبہ مملکت کے صدر بنے بیٹھے ہیں،ان کے صاحبزادے بلاول زرداری جو بڑی جستجو سے،بڑی لگن سے،بڑی تندہی سے وزیراعظم کی کرسی تک پہنچنے کے لیے کوشاں ہیں،ان کی جانشین کے طور پر سمجھی جانے والی آصفہ بھٹو یا شادی کر کے پیادیس سدھار جانے والی بیٹی بختاور چوہدری کسی کی جانب سے کوئی مبارک باد کا پیغام پڑھنے سننے کو نہیں ملا(یا میری طرف سے کوئی کوتاہی ہوگی کہ میری نظر سے یا میری سماعت سے نہیں گزرا) حالانکہ ہر قومی موقعے پر صدر مملکت اور پارٹی چیئر پرسن کی جانب سے تہنیئتی پیغامات جاری ہوتے رہتے ہیں،خیر میں اپنا صحافتی حق ادا کرنے کے لیے حاضر ہوں اور پوری پاکستانی قوم کو ایک روز کی تاخیر سے محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کی مبارکباد دیتا ہوں اور یہ سوچی سمجھی تاخیر صرف اس وجہ سے ہوئی کہ میں جاننا چاہتا تھا کہ اب بھی ان سے وفاداری کا حق ادا کرنے والے کتنے جیالے موجود ہیں،آج کے سیاست کے طالب علموں کی معلومات کے لیے چند سطریں نظر قرطاس کر رہا ہوں،محترمہ بے نظیر بھٹو 21 جون 1953 کو محترمہ نصرت بھٹو کی گود میں آئیں یا یوں کہہ لیجیے کہ 21 جون 1953 کو بی بی نے جنم لیا، ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی آپ اپنے والد کی طرح ان معدودے چند پڑھے لکھے سیاست دانوں میں سے ایک تھی کہ جن کے تعلیمی ماتھے پر آکسفورڈ یونیورسٹی کا جھومر چھب دکھلاتا تھا،شہید ذوالفقار علی بھٹو کے آخری ایام قید کے دوران بی بی ہی ان سے سب سے زیادہ قریب تھیں اور ان کے سیاسی دشمنوں نے شاید ان سے اسی بات کا انتقام بھی لیا جو مظالم بھٹو مرحوم پر نہ ڈھائے جا سکے تھے ان کی گنتی محترمہ بے نظیر بھٹو پر پوری کی گئی،بی بی کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی محض ایک صوبے صوبہ سندھ کی جماعت بن کر رہ گئی ہے حالانکہ ان کی زندگی میں نعرہ مقبول تھا کہ” چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر” ,صدر آصف زرداری اپنے تئیں اپنے مقاصد کی تکمیل تو ضرور کر رہے ہیں اس وقت بھی پنجاب اور کے پی کے میں پیپلز پارٹی کے گورنرز ہیں، سینیٹ میں چیئرمین کا عہدہ پیپلز پارٹی کے پاس ہے،مگر زمینی حقائق چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ بھٹو کی بیٹی بے نظیر کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی بھی شہید ہو گئی#

Comments (0)
Add Comment